کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 32
تعلیم اسلامی اور تعلیم عیسوی کا مقابلہ موجودہ عیسائیت؛ خود مسیحی علما کی نظر میں اب ہم تعلیم اسلامی اور تعلیم عیسوی کا مقابلہ پیش کرتے ہیں ۔ فی الحقیقت جو کچھ ہم نے اوپر لکھا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوگیا ہوگاکہ کوئی ایسی تعلیم سرے سے ہے ہی نہیں جس پرصحیح معنوں میں تعلیم عیسوی کا نام عائد ہوسکے، کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کے تابع تھے اور اناجیل اربعہ کا درجہ ہمارے ہاں موضوع،منقطع و غیر مرسل احادیث سے بھی کہیں زیادہ گرا ہوا ہے اور موجودہ عیسوی تعلیم کے مؤسس و مخترع اصل میں سینٹ پال ہیں اوراس کی تحریف کی تکمیل نائی سیا کی کونسل نے کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا موجودہ عیسائیت میں اس قدر حصہ ہے کہ ان کے مبارک وبزرگ نام کی طرف اس سینٹ پالی مذہب کومنسوب کرکے ان کی علانیہ توہین و تحقیر کی جاتی ہے۔ورنہ حضرت عیسیٰ کا خیال تو فقط مذہب ِموسوی کا احیا و تجدید تھا۔ پولس کا فتنہ اس قدر نازک وقت میں کھڑا ہوا کہ مسیحیت بالکل اس کے خیالات و معتقدات کے سانچہ میں ڈھل گئی۔ جب سینٹ پال (پولس) نے اپنے مافوق الفطرت طریق پر مسیحی ہونے کا اعلان کیا، اس وقت مسیحیت عجیب کسمپرسی کی حالت میں تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام پر بادشاہِ وقت ،قیصر روم کی بغاوت کا جرم عائد کرواکر ان کو صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کے پیرؤوں میں سوائے چند ایک کمزور کردار کے آدمیوں کے کوئی ایک بھی قابل التفات شخصیت نہ تھی۔ رومیوں اور یہودیوں کی سفاکیوں کے باعث ان کے قلوب اس قدر مرعوب ہوچکے تھے کہ وہ حضرت عیسیٰ کا نام لینا بھی اپنے لئے خطرۂ مرگ خیال کرتے تھے۔ ایسی حالت میں پولس نے ان کو اپنے آغوشِ شفقت میں لیا اور مسیحیت کو مذہب ِپال بنادیا۔ چنانچہ ریورنڈ ڈاکٹر ای اے سٹوارٹ ایم اے اپنے سالانہ وعظ میں فرماتے ہیں : ’’ہم اس امر کے تصور سے کہ مسیحیت کس طرح دین موسویت میں (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد)مدغم ہوچکی تھی، تھرا اُٹھتے ہیں ۔ یہودی اثر اس قدر غالب ہوچکاتھا کہ اس نے قریباً اس کی تمام شاندار اُمیدوں پرپانی پھیر دیا تھا۔ یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام