کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 31
کو شفا دینے سے محض اس بنا پر انکا رکیا کہ وہ یہودیہ یعنی بنی اسرائیل سے نہیں ۔ (انجیل متی: باب ۱۵/ آیت ۲۴ تا ۳۰) بالخصوص حضرت مسیح علیہ السلام کے یہ الفاظ: ’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘ (آیت:۱۲۴) لیکن حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے۔ اوربخلافِ اناجیل قرآنِ حکیم پکار پکار کرکہہ رہا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کی طرف مبعوث کیا گیاہے ﴿وَمَا اَرْسَلْنَا کَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾(الانبیاء:۱۰۷) ’’تجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر بھیجا گیا ہے۔‘‘ ﴿وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ﴾ (السبا :۲۸) ’’اور ہم نے تم کو تمام جہان کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (رسول) بنا کر بھیجا، لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے۔‘‘ اس مضمون کی اور آیات قرآنِ مجید میں بے شمار ہیں ، ہم نے مختصرا ً دو پیش کردی ہیں ۔ 4. آپ خاتم ِنبوت و رسالت تھے، اس لئے سب انبیا کے سردار اور ان کے اَدیان کے مکمل کرنے والے تھے: ﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین (انبیا کے سلسلہ کو ختم کرنے والے) ہیں ۔‘‘ (الاحزاب :۴۰) جہاں انجیل و قرآن حکیم دونوں کی رو سے حضرت عیسیٰ محض مبشر و مناد او ر متبع نبی تھے، وہاں ہمارے حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم افضل ترین انبیا میں سے تھے… ہر چند کہ آخر بظہور آمدہ پیش ازہمہ شاہان غیور آمدہ اے ختم رسل قرب تو معلوم شد دیر آمدۂ زراہ دور آمدہ