کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 30
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں ، مگر اب تم ان کو برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب فارقلیط آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ (یوحنا: باب۱۶/ آیت ۱۲تا۱۳) ان دونوں اقتباسات پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام محض ایک مبشر اور مناد تھے جو آسمانی بادشاہت کے آنے سے پہلے اس کی منادی کرنے کو آئے تھے۔ آسمانی بادشاہت کے خود لانے والے نہ تھے اور سچائی کے مکمل راستہ کو دکھلانے کے لئے آنے والا وجودِ مقدس اورہے۔ یہ وجودِ مقدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جوحضرت مسیح علیہ السلام کے بعد چھ سو سال کے اندر تشریف لائے۔ کیونکہ بقولِ کتاب ِمقدس: ’’اے خداوند! خدا کا ایک ہزار سال تیری ایک آنکھ کے جھپکے کے برابر۔‘‘ یہ عرصہ چھ صد سال بہت ہی قلیل عرصہ ہے اور انہوں نے وہ تمام باتیں بتائیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ بتلا سکے اور﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَ مَ دِیْنًا﴾(المائدۃ:۳) کامژدہ دنیا کو سنایا، صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ واصحابہ اجمعین۔ اس طرح قرآن حکیم کی اور آیات بینات ہیں جو اس واقعہ کو اس سے بھی زیادہ واضح کررہی ہیں : ﴿اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِیْ التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ﴾(الاعراف:۱۵۷) ’’ مؤمنوں کی جماعت وہ ہے جو نبی اُمی کی پیروی کرتے ہیں ، جس نبی کا ذکر ان کو تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔‘‘ 2. آپ مؤسس نبی تھے ﴿فَاصْبِرْکَمَا صَبَرَ اُوْلُوْا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ﴾ (الاحقاف:۳۵) پہلے آچکا ہے کہ اولوا العزم رسل صرف مؤسسین ہی ہیں ۔ 3. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس قدر انبیا آئے، ان کا دائرۂ ارشاد و تبلیغ کسی خاص قوم یا اُمت ہی تک محدود تھا چنانچہ خود حضرت مسیح نے اپنے ۱۲/حواریوں کو یہی حکم دیا تھا کہ سوائے بنی اسرائیل کی گم گشتہ بھیڑوں کے او رکسی کودعوت نہ دیویں ۔ اور خود حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک بیمارعورت