کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 3
جاتا ہے۔ افغانستان کی مثال لے لیجئے، اس پورے المیہ کا حل صرف اس نتیجے پر موقوف تھا کہ ملا عمر کی بجائے حامد کرزئی کی حکومت وہاں قائم ہوجائے، اسامہ بن لادن کا ہوا یا القاعدہ کی دہشت گردیاں تو فقط اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ایک بہانہ تھیں ۔ صرف اسی مقصد کے حصول کیلئے افغان عوام پر آتش وآہن برسایا گیااور شہروں ، دیہاتوں کو تباہ وبرباد کیا گیاکیونکہ وہاں ایسی حکومت قابل قبول نہیں تھی جو سامراجی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ بنتی اور ان کا دباؤ قبول نہ کرتی۔
جدید دور کی کرشمہ سازیوں میں سے یہ بھی ہے کہ یہ استعماریت سیاست سے بڑھ کر اب آگے کئی نئے روپ دھار چکی ہے۔ نیا دور اقتصادی،ابلاغی اور فکری و تعلیمی استعماریت کا دور ہے۔ نئی صدی کے تقاضوں کی تکمیل اور اس میں باقی رکھنے کی جدوجہد (تنازع للبقا)پچھلی صدی سے اس لحاظ سے زیادہ مشکل ہے کہ اب جارحیت و تسلط کاانداز زیادہ پیچیدہ اور سائنٹفک ہوگیا ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر ’اقوام متحدہ ‘ اگر عالمی قوتوں کی یرغمال ہے تو معیار(ISO سرٹیفیکیشن) کے نام پر دنیا بھر کی تجارت پرمغرب کا انجینئرڈ تسلط ہے۔
پچھلی صدی اور موجودہ صدی کے عالم اسلام میں یہ بھی فرق ہے کہ تب غلامی کی زنجیریں اپنے وجود پر ہمیں محسوس ہوتی اور بوجھل لگتی تھیں اور مسلمان ان سے آزادی حاصل کرنے کے لئے بے چین وسرگرم تھے۔ اب جدید استعمار نے غلامی کا رنگ ڈھنگ بدل دیا ہے اور ہمیں اس محکومیت کی متنوع صورتوں کا نہ احساس باقی رہا ہے اور نہ اس سے پیچھا چھڑانے کی کوئی مستقل اور پُرعزم منصوبہ بندی ہمارے پیش نظر ہے۔
پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کا ذہین اور باصلاحیت طبقہ اس جدوجہد آزادی میں اُمت مسلمہ کے شانہ بشانہ کھڑا تھا، اب وہی بااثر اور مقتدر طبقہ اپنے ہی ہم مذہبوں اورہم وطنوں پر حکومت کرکے عیاشی میں مصروف ہے۔ مسلم ممالک میں ترقی پسند اور اسلام پسند کے دو واضح طبقے موجود ہیں جس میں اوّل الذکر ترقی کے نام پر مغرب نوازی اور ان کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہا ہے۔ وہ ہر چیز کو اہل مغرب کی عینک سے دیکھتا ہے۔یہی وہ طبقہ ہے جو مسلم ممالک کی اشرافیہ کہلاتا ہے اور اقتدارکے سرچشموں پر قابض ہے۔ دوسری طرف جنہیں رِجعت پسندکا طعنہ