کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 29
ہماری اس وضاحت سے بخوبی ظاہر ہوگیا ہے کہ انبیا علیہم السلام کے زمرہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا مرتبہ ایک متبع نبی کا سا ہے۔ دوسرا خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا عمل قانونِ تورات ہی پر رہا۔ چنانچہ یوحنا نبی سے بپتسمہ لینے کا واقعہ اناجیل اربعہ میں موجود ہے جو اس امر کی صاف دلیل ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام یوحنا نبی موسوی کے ہاتھ پرداخل مذہب ِموسوی ہوئے۔‘‘ (انجیل متی: باب ۳/ آیات ۱۳ تا ۱۶/مرقس :باب ۱/آیات ۹ تا۱۱/ لوقا :باب ۳/ آیات ۲۱ و ۲۲) چہ خوش کہ ابن اللہ جوبقول مقدس ارستھاناس تورات کو اتارنے والا اور حضرت موسیٰ کو ’شجرۂ طور‘ پر أنا اللہ کہنے والا تھا ،دنیامیں آکر اسی تورات اور اسی موسیٰ کے ماتحت ہوگیا اور اس سے سرمو انحراف کو کفر خیال کیا ؎ کان مملوکی فاضحیٰ مالکی إن ھذا من أعاجیب الزمن ابن اللہ کی خدائی بھی عجیب قسم کی خدائی ٹھہری۔ بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب قرآنِ کریم کی رو سے یہ ہے وہ دعویٰ جو عیسائی اور ان کی کتب ِمقدسہ اپنے نبی کے متعلق پیش کرتی ہیں ۔اب دیکھئے قرآنِ حکیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں کیا فرماتا ہے: 1. جملہ انبیا اور بالخصوص حضرت موسیٰ اور ان کے متبعین مع حضرت مسیح علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدس صفات کی بشارت دیتے آئے ہیں ۔ ﴿مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّأتِیْ مِنْ بَعْدِيْ اسْمُہٗ اَحْمَدُ﴾(الصف:۶)خاص طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ چنانچہ انجیل متی (باب ۴/ آیت ۱۷) میں مذکور ہے: ’’اس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمانی بادشاہت نزدیک آگئی ہے۔‘‘ ذرا ’نزدیک آگئی ہے‘ کے الفاظ پر غور کرو، اگر خود مسیح علیہ السلام اس کے مصداق ہوتے تو صاف فرماتے کہ آسمانی بادشاہت آگئی ہے اور میں اسے لایا ہوں ۔ اور ’رفع الی السما‘ کے بعد یہ نہ کہتے