کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 28
حقیقی کی تعلیم دی۔ اس سارے بیان سے یہ حقیقت کماحقہ آشکارا ہوجائے گی کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تمام عمر تورات پرعمل کرنے کی تعلیم دی اور اسی کی تعلیمات کی نشرواشاعت میں مصروف رہے او ران کا تمام زورِ تبلیغ بنی اسرائیل کی گم گشتہ و گمراہ بھیڑوں کو راہِ راست پر لانے اور ان کی قومی و انفرادی برائیوں کی اِصلاح میں صرف ہوا۔ اور ان کو تمام عمر یہ خیال نہ آیا کہ علیحدہ مذہب کی بنیاد ڈالیں ۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک مدت تک ان کے تمام حواری بھی اسی پر متفق رہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کوئی نیا مذہب نہیں لائے، اسی واسطے انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے مقالات کو قلم بند کرنا ضروری بھی نہیں سمجھا۔ موجودہ عیسائیت کی تاریخی حیثیت بالآخر جب پطرس اور سینٹ جیمز حواریانِ مسیح اور سینٹ پال میں ا ختلاف بڑھا تو اس ضرورت کو محسوس کرنا پڑا۔ سینٹ پال مسیحی مذہب کو اپنی خواہشات اور یونانی معتقدات کے تابع کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہ یونانی الاصل تھا اور اس کی تمنا تھی کہ یہ مذہب کسی طرح یونانیوں اور رومیوں میں ہر دل عزیز ہوجائے۔نیز اس کو یہ معلوم تھاکہ یونانیوں اور یہودیوں کی قدیمی عداوت یونانیوں کو یہودیوں کی مذہبی تابعداری سے مانع ہوگی۔ چنانچہ اپنے پہلے خط میں گرنتھیوں کے نام وہ لکھتا ہے: ’’ میں یہودیوں کیلئے یہودی بنا، تاکہ یہودیوں کو کھینچ لاؤں ۔ جولوگ شریعت کے ماتحت ہیں ان کیلئے میں شریعت کے ماتحت بنا، تاکہ میں شریعت کے ماتحتوں کو کھینچ لاؤں ۔ اگرچہ میں خود شریعت کے ماتحت نہ تھا اور جو لوگ بے شرع ہیں ان کیلئے میں بے شرع بنا کہ بے شرع لوگوں کو بحیثیت ِبے شرع ہونے کے کھینچ لاؤں ۔‘‘ (باب۹/آیت ۲۰تا۲۱) لیکن پطرس اور سینٹ جیمز اس امر کو پوری طرح سے محسوس کرچکے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام یہودیوں کی کھوئی ہوئی عظمت واپس لانے کے لئے تشریف لائے۔ یہ اختلاف کونسل آف نائی سیا کے زمانہ تک قائم رہا۔ جبکہ شاہِ قسطنطنیہ نے مذہب مسیحیت کو شاہی مذہب قرار دیا او ربزورِ شمشیر سینٹ پال کے معتقدات کو رائج کیا۔