کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 27
اور ہمیشہ اپنا مشن موسویوں کی اصلاح ظاہر کیا۔ چنانچہ انجیل متی کی رو سے حضرت مسیح فرماتے ہیں : ’’یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کومنسوخ کرنے آیاہوں ، منسوخ کرنے نہیں ، بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتاہوں کہ جب تک آسمان و زمین ٹل نہ جائیں ، ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات سے ہرگز نہ ٹلے گا، جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے کسی کو بھی توڑے گا اوریہی آدمیوں کو سکھلائے گا، وہ آسمان کی بادشاہت میں سب سے جھوٹا کہلائے گا،لیکن جو اس پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا، وہ آسمان کی بادشاہت میں بڑا کہلائے گا۔‘‘ (متی باب ۵ آیات ۱۷ تا ۱۹) اس میں آسمان کی بادشاہت میں عزت و ذلت کا معیار فقط قانونِ موسوی پر عمل کو بتلایا گیاہے۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام جب اپنے بارہ رسولوں کو منتخب کرکے رخصت فرماتے ہیں تو ان کو ہدایت فرماتے ہیں کہ تورات کی تعلیم دینا اور فقط بنی اسرائیل کو پیغام پہنچانا : ’’ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور انہیں حکم دے کر کہا کہ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا، بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف جانا۔‘‘ (انجیل متی: باب ۱۰/ آیات ۵ تا ۷) پھر ایک شخص مسیح سے پوچھتا ہے کہ میں اَبدی زندگی و نجات کس طرح حاصل کرسکتا ہوں ؟ تو اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ تورات کے احکام پرکماحقہ عمل کرو۔ ہاں چونکہ بنی اسرائیل میں خیرات کا مادّہ خاص طور پر فوت ہوچکا تھا، اس لئے اُسے خیرات و ایثار فی اللہ کی خاص تعلیم دی جاتی ہے، کیونکہ مصلح کا فرضِ اوّلین یہی ہوتا ہے کہ اپنی تعلیم میں قومی اور وقتی ضروریات کی بنا پر خاص خاص اخلاقوں پر زیادہ زور دے اور ان کی تعلیم کونمایاں درجہ دے : ’’اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکر اس (یسوع) سے کہا: اے استاد! میں کون سی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں ۔ اس نے کہا کہ تو مجھ سے نیکی کی بات کیوں پوچھتا ہے، نیک تو ایک ہی ہے (یعنی خدا کی ذات تمام نقائص سے مبرا ہے)۔ لیکن تو اگر (ابدی) زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو (تورات کے) احکام پر عمل کر۔‘‘ (متی: باب ۱۹/آیات ۱۶ تا ۱۷) اس کے بعد حضرت مسیح نے اسے تمام اَحکامِ تورات گن کر بتائے اور بعد میں اسے خیراتِ