کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 25
مرتبت اور اصطفیٰ کا تعلق ہے، ’اولوا العزم من الرسل‘ سے بڑا مرتبہ رسالت و نبوت میں قرآنِ حکیم کی رو سے اور کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ اور ان تینوں انبیا کے والدین کا ذکر کسی طرح سے بھی قرآن حکیم میں تعریف سے مذکور نہیں ہوا، بلکہ اُلٹا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے باپ کے کفر کا بالا ستیعاب ذکر ہوا۔ مجدّد وہ ہے جو کسی مؤسس کے دین کی تجدید کے لئے آئے، اس کے پاس کتاب وشریعت ہوتی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ متّبع وہ ہے جو خود صاحب ِکتاب و شریعت ِجداگانہ نہ ہو، بلکہ اپنے سے پہلے صاحب ِ کتاب و شریعت کے اتباع میں اس کی شریعت و سنت کے احیا کے لئے مامور من اللہ ہو۔ وہ وقتاً فوقتاً حسب ِضرورت وحی الٰہی سے سرفراز ہوتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کے انبیا جو حضرت سرور عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تشریف لائے۔ حضرت مسیح کس زمرہ میں سے ہیں ؟ اس تقسیم سے جو ہم نے کی ہے، صاف ظاہر ہوگا کہ مؤسس انبیاء کا رتبہ اوّل، مجددین کا دوم اور متبع انبیا کا سوم درجہ ہوگا۔ اب ہم قرآنِ حکیم اور انجیل مقدس کی رو سے دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کس زمرہ میں تھے اور ہمارے حضور سرورِ عالم کس زمرہ میں ، علیہم الصلوٰۃ والسلام! پیشتر اس کے کہ اناجیل اربعہ نے جو پوزیشن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دکھلائی ہے، وہ آپ کے سامنے آئے، اس امر کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ عیسائیوں کا بالاتفاق عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی کتاب نہیں لائے اور ان کی حین حیات اور اس کے بعد بھی سالہا سال تک عیسائی دنیا اسی عقیدہ پر قائم تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فقط تورات کے مذہب کو قائم کرنے اور یہودیوں کی اصلاح کی غرض سے تشریف لائے تھے اور موجودہ عیسائی مذہب اور مقدس کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سینٹ پال کی کوششوں سے وجود میں آئی اور قریباً تین صد سال میں متشکل ہوئی، بالآخر ’کونسل آف پنسیا‘ نے اس پر اِلہامی ہونے کی مہر لگا دی۔