کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 23
ربّ تعالیٰ سے گہرا تعلق استوار کرنا چاہیے بلکہ دوسروں پر غلبہ کے لیے بھر پور اجتماعی مساعی کر کے اس کا زمینی جواز بھی مہیا کرنا چاہیے، اللہ کی مدد صرف دعاؤں کے سہارے نہیں آئے گی۔نبی عربی کے اُمتی ہونے کے ناطے ہم اس امید پر جئیں کہ ہمیں قوموں کے اس مقابلے میں خود بخود غلبہ حاصل ہو جائے گا تو یہ محض حالات سے چشم پوشی اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہمارا انفرادی کردار ہم سے بہت بہتری کا متقاضی ہے اور اجتماعی سطح پر ہمیں غیر معمولی محنت کی ضرورت ہے۔اللہ کی سنت تغیر احوال میں یہی رہی ہے۔اگر ہم ربّ تعالیٰ سے ہی اپنا تعلق مستقل اور قوی بنیادوں پر استوار کر لیں اور یہ رویہ پورے اجتماع میں سرایت کر جائے تب غیبی امداد کی بھی توقع کی جاسکتی ہے وگرنہ ایسے حالات میں ہر قسم کی آزمائش کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں سے وعدہ ہے
﴿وَأَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾
’’اگر تم مؤمن ہوئے تو تم ہی سربلند ہوگے۔‘‘ (آلِ عمران :۱۳۹)
جو لوگ صرف دعاؤں کے سہارے ان مصائب کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں انہیں اسی پر اکتفا کرنے کی بجائے اپنے عمل سے بھی اس کی تائید کرنا ضروری ہے۔ ربّ کی رحمت کے سہارے ہاتھوں پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہنا اور کا میابی کی امید رکھنا اسلام کے سوئِ فہم کا نتیجہ ہے۔ اللہ کی یہ سنت پہلے کبھی رہی ہے اور نہ ہی اس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے!!