کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 22
کرنے پربھی ہمیں ترغیب دلائی ہے۔ مسلمان کا اللہ تعالیٰ پر غیر معمولی ایمان اور اعتماد ہی اسے دنیوی واُخروی کامیابی سے ہم کنار کر سکتا ہے۔یہ تو ممکن ہے کہ کوئی غیر مسلم اسباب کے بل بوتے پر دنیوی نتائج حاصل کرے لیکن اسلام کا نام لیوا ہو کر اللہ کی نصرت پر عدم اعتماد اور دین پر عمل کرنے سے فرار اور صرف اسباب پر انحصار کرنا بڑی بد بختی اور شقاوت کا سبب ہے۔ مسلمانوں پر مصائب ومشکلات کے اس ختم نہ ہونے والا سلسلے کے تدارک کے لئے اصل کارساز یعنی ربّ العالمین کی طرف مسلمانوں کا رجوع کرنا بہت ضروری ہے ۔ دین کے احکامات کوبجا لانا اور من حیث المجموع شریعت ِاسلامیہ کی پاسداری کرنا ہمارا انفرادی واجتماعی فرض ہے۔ اگر بعض لوگ یہ جواز پیش کریں کہ اجتماعی طور پر ہمارے حکمران اسلام سے انحراف کیے ہوئے ہیں ، ملکی معاملات حکمرانوں کی تائید کے بغیر تبدیل نہیں کیے جا سکتے اور اس صورتحال میں ایک مخلص مسلمان دعا اور مناجات کے ذریعے ربّ تعالیٰ سے فریاد کر کے غیر معمولی اورما فوق الاسباب مدد کی توقع کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہم مسلمان اجتماعی طور پر تو اسلام کی پیروی نہ کرنے کے مجرم تو ہیں ہی لیکن انفرادی طور پر بھی ہماری کارکردگی کسی طور تسلی بخش نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ﴿وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ﴾ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الا إن القوۃ الرمی کے ذریعے قوت حاصل کرنے کاحکم ہمیں صراحت سے دیا ہے ، من حیث الملت جس میں کوتاہی کے ہم مرتکب ہیں ۔ انفرادی طور پر بھی اسلامی احکامات کی بجاآوری ہمارا فرضِ اوّلین ہونا چاہیے لیکن ہم اسلامی احکامات کی کس حد تک تعمیل کرتے ہیں ،مساجد میں پنج وقتہ نماز پڑھنے والے نمازیوں کی تعداد اور اپنے اپنے گھروں پر ایک نظر ڈالنے سے اس کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔انفرادی سطح پرزکوٰۃ کی ادائیگی کا تناسب بھی مسلمانوں میں شرمناک حد تک کم ہے!! علاوہ ازیں اگراجتماعی طور پر ہم کوتاہی کے مرتکب ہیں تو انفرادی نیکیوں اوردعاؤں کے ذریعے اجتماعی طور پر کامیابی کے زینے پر نہیں چڑھ سکتے۔ اجتماعی مقاصد کے لیے اجتماعی نوعیت کی ہی بہتری مطلوب ومقصود ہے۔ مسلمانوں کو اس طوفانِ بلا خیز کے مقابلے کے لیے نہ صرف