کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 19
ہے ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کا غیر معمولی توکل اوراللہ پر غیر معمولی اعتماد و ایمان کا اظہار اللہ تعالیٰ کواس قدر مسرور کر دیتا ہے کہ وہ اسباب سے بڑھ کر اس کی مدد کرتا ہے۔
1. چنانچہ حضرت ابراہیم کا آگ میں ڈالے جانے کاواقعہ ذہن میں لایئے۔ جب جبریل کی مدد کی پیشکش کو بھی حضرت ابراہیم نے ر دّ کر دیا اورکہا کہ میرا ربّ میری حالت کو بخوبی جانتا ہے اوروہی مجھے کافی ہے۔ حضرت جبریل کی مدد بھی اسباب پر اعتماد کی ہی ایک صورت ہوتی لیکن خلیل اللہ نے جب اللہ پر غیر معمولی توکل کا اظہار کیا تو اللہ نے آگ کے جلانے کے آفاقی اُصول کو بھی تبدیل کر کے مافوق الاسباب ان کی مددکی۔
﴿قَالُوْا حَرِّقُوْہٗ وَانْصُرْوْا أٰلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ قُلْنَا یَنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ ﴾ (الانبیاء: ۶۸،۶۹)
’’کہنے لگے: اسے جلا دو او راپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے۔ تب ہم نے آگ کو حکم دیا : اے آگ! تو ٹھنڈی پڑجا اور ابراہیم علیہ السلام کے لئے سلامتی اور آرام والی بن جا۔‘‘
ہو جو براہیم کا سا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
2. حضرت ابراہیم کا غیر معمولی اعتماد اور ربّ تعالیٰ کے احکامات بجا لانے کی غیر معمولی خواہش جب اس حد تک پہنچی کہ انہوں نے لخت ِجگرکے گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی جگہ دنبہ رکھ دیا۔
﴿ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلاَئُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنٰــہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ﴾ (الصافات: ۱۰۷)
’’یہ توایک کھلا امتحان تھا ، او رہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔‘‘
3. نبی کریم نے جنگ ِبدر میں اللہ تعالیٰ سے بڑی کمزوری اور فکرو پریشانی میں فریاد کی :
اللہم إنک إن تہلک ہذہ العصابۃ من أہل الإسلام لا تعبد فی الأرض أبدًا (مسلم؛ رقم ۱۷۶۳)
’’ یا اللہ !آج اگر یہ جماعت بھی قائم نہ رہی تو اس سرزمین میں تیرا کوئی نام لیوا نہ رہے گا‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ما فوق الاسباب فرشتوں کی فوجیں اتار دیں ۔ ع
فضائے بدر پیدا کر ، کہ فرشتے تری نصرت کو اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی