کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 18
انبیا کو اپنے ساتھی ملنے، معزز قبائل کے فرد ہونے،معجزے میسر ہونے اور دیگر ظاہری اسباب حاصل ہوجانے کے پیچھے بہر حال ربّ تعالیٰ کے رحمت بے کراں ہی ہوتی ہے ، انبیاء کا غیر معمولی توکل اور ربّ پر ایمان وایقان اللہ کی مدد کے پیچھے محرک اور عامل ہوتا ہے ۔ ربّ کی مدد ؛ اسباب کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو دار الاسباب بنایا ہے اور یہاں مختلف چیزوں کو علت اور معلول کے رشتہ میں باندھ رکھا ہے۔ سائنس جوں جوں ترقی کر رہی ہے، علت اور معلول کے یہ راز اس پر منکشف ہوتے جا رہے ہیں ۔ 1. حضرت ایوب علیہ السلام کو جب شدید بیماری اور مرض نے گھیر لیا اور یہ آزمائش برسوں تک طویل ہو گئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے از خود ان کو بھلا چنگا کرنے کی بجائے ایک ظاہری سبب بھی مقرر فرمایا کہ ﴿ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا أَیُّوْبَ إذْ نَادٰی رَبَّہٗ أَنِّیْ مَسَّنِيَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ، اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ہٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ﴾ (سورۃ ص ٓ: ۴۱،۴۲) ’’اور ہمارے بندے ایوب علیہ السلام کا (بھی) ذکر کر، جب کہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے۔اپنا پاؤں مارو ، یہ نہانے کاٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے۔‘‘ 2. نبی کریم نے غزوۂ خندق میں جب کفار کے غیر معمولی لشکر اور تیاریوں کے سامنے اپنے آپ کو کمزور وبے بس پایا تواللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آندھی جیسی آسمانی آفت سے لشکر ِکفار کے پاؤں اُکھیڑ دیئے۔ 3. ایسا ہی ایک واقعہ ملک الموت کے حوالے سے اسرائیلیات میں بھی ملتا ہے کہ جس کی رو سے اللہ تعالیٰ نے موت کو ملک الموت کے آجانے اور اجل قریب ہو جانے کی بجائے مختلف اسبابِ ظاہری سے معلق کر دیا۔ ٭ ربّ ِدو جہاں کے لیے اس کے باوجود اسباب کی موجودگی کوئی لازمی شرط کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ اس کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی اُمور دنیا میں جاری ایک معروف سنت اور طریقہ کی سی