کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 17
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِیْ الأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لاَ یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا﴾ (النور: ۵۵)
’’ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اَعمال کیے ہیں ، اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا جسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف وخطر کو امن وامان سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں ۔‘‘
فلاح اور خوشحالی کایہ توبنیادی تصور ہے جو ایمان وعقیدہ سے متعلق ہے اور جس کی رو سے اللہ کے احکام پر عمل درآمد کرنے سے فلاح کی بنیادی اوراُصولی وجوہات میسر اور اسبا ب حاصل ہو جاتے ہیں ۔لیکن اس کے بعد بھی مقاصد از خود حاصل نہیں ہوجاتے بلکہ اس کے لیے کوشش عمل میں لانی پڑتی ہے۔ اللہ کی جناب سے منظوری کے بعد آسانی اور کامیابی کے راستے کھلتے جاتے ہیں ۔
دوسری طرف یہ بھی امرواقعہ ہے کہ تقدیر میں جو لکھا ہوتا ہے وہ بھی اللہ غیبی ذرائع سے پورا نہیں کرتا بلکہ اس کا راستہ انسان پر آسان کردیا جاتا ہے۔ کسی کا کسی امر پر انشراحِ صدر ہوجانا اور اس کے مثبت نتائج اس کو شدت سے نظر آنے لگنا وغیرہ اسی کی صورتیں ہی ہوتی ہیں ۔
دنیا میں اسبا ب کے ذریعے اُمور کی انجام دہی کا اصول اس قدر مسلم ہے کہ اگر یہی منطقی اسباب غیر مسلم بھی کسی امر کی انجام دہی کے لیے مہیا کر دیں تو دنیا کی حد تک مقاصد ان کوبھی حاصل ہوجائیں گے جب کہ آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوگا۔دوسری طرف مسلمان نیک اعمال کے ذریعے ربّ کو راضی کرے،اللہ کی خوشنودی کواصل اہمیت دے اور اس کے ساتھ اسباب کو بھی میسر کرے ، اصل اعتماد ربّ تعالیٰ کی ذات پر رکھے تو اس کے لیے نہ صرف دنیا میں نتائج یقینی ہیں بلکہ آخرت کا اجراور جنت بھی محفوظ ہے ۔