کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 16
ثواب یاعقاب کا مستحق ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روز قیامت مشرکین کا یہ جواز قبول نہیں کرے گا، جب وہ کہیں گے:
﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ شَائَ اللّٰہُ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِنْ شَیْیٍٔ﴾
’’کافر کہیں گے: اگر اللہ چاہتا توہم شرک کرتے او رنہ ہمارے آباؤ اجداد۔ نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام کہتے۔‘‘ (الانعام:۱۴۸)
تفصیل میں جائے بغیر ایک حاشیہ کی طرف اشارہ کرکے ہم اپنے موضوع کو جاری رکھتے ہیں ۔اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف اپنی تفسیر ’احسن البیان ‘میں لکھتے ہیں :
یہی وہ مغالطہ ہے جومشیت اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف چیزیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا۔ عذابِ الٰہی اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے او ررضائے الٰہی اور چیز…‘‘ (ص ۳۹۹)
انسان کا کام یہ ہے کہ نیکی کے افعال بجا لائے اور اللہ کی اطاعت کے لیے سر گرم رہے۔ دنیا میں ہونے والے کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ اسباب بھی خود پیدا فرماتا ہے۔بغیر اسباب کے صرف غیبی ذرائع سے کسی امر کی انجام دہی ربّ ِکریم کی سنت نہیں ۔
اصل سوال پھر بھی باقی ہے کہ علت اورمعلول کے اس سلسلے میں بنیاد/علت اللہ کی مشیت ہے یا اسبابِ ظاہری۔ بطورِ مسلمان ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ ظاہری اسباب کے ذریعے افعال کاوجود میں آنا ربّ تعالیٰ کی سنت تو ہے لیکن اصل عامل پیچھے ربّ تعالیٰ کی ذاتِ کریم ہے ۔ انسان کو اپنے تئیں تمام تدابیر اختیار تو کرنا چاہئیں لیکن ان کے نتائج اللہ پر موقوف سمجھنے چاہئیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کی اطاعت اور فرمانبرداری کو قبول کر لے تو اس سے ایسے ظاہری اسباب بھی پیدا فرما دیتا ہے جو مقاصد کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں ۔
قرآنِ کریم میں معاشرے میں فلاح اور خوشحالی حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ سے تعلق کو مضبوط کیا جائے اور ہرکام اطاعت ِالٰہی کے دائرہ میں رہ کرکیا جائے۔ اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ خوشحالی اور اطمینان کی راہیں آسان کردے گا۔ ارشادِ باری ہے :