کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 15
أنْ نَّبْرَأَھَا، إنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ لِکَیْلاَ تَأْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَا آتَاکُمْ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ﴾ (الحدید: ۲۲،۲۳)
’’ نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل)آسان ہے۔ تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر اِترا جاؤ اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔‘‘
تقدیرپر ایمان، مسلمان کے بنیادی عقائد میں نہ صرف شامل ہے بلکہ ایمان کے چھ ارکان میں سے آخری رکن بھی ہے چنانچہ نبی کریم فرماتے ہیں :
لا یؤمن عبد حتی یومن بالقدر خیرہ وشرہ (ترمذی؛ ۲۱۴۴)
’’کوئی بندہ ا س وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اچھی او ربری تقدیر پر ایمان نہ لے آئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے اور دنیا میں تمام کام اللہ کی مشیت اورحکمت ِبالغہ کے تحت ہی ہوتے ہیں : ﴿اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَائُ﴾ (الحج:۱۸) ’’ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔‘‘لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا میں لانے کا مقصد ہی فوت ہو جائے جب انسان کسی فعل کو اپنی مرضی سے انجام دینے پر قادر نہ ہو کیونکہ انسانوں کی آمد کا مقصد قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے
﴿اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً ﴾ (الملک: ۲)
’’ جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے ۔‘‘
تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ اصل حیثیت اگرچہ تقدیر کو حاصل ہے تاہم انسان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ ﴿ إما شاکرا وإما کفورا﴾ (الدہر: ۳) ’’خواہ وہ شکر گزار رہے یا ناشکرا‘‘
چنانچہ ہر شخص کے لئے اچھے اور برے پہلو کا اختیار کرنا ممکن ہے، کسی کام کے وقوع ہوجانے تک ہرممکن محنت کرنا مسلمان کا فریضہ ہے اور اسی میں کوتاہی نہ کرنے یا کرنے پر وہ