کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 14
ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَمَا لِہٰؤُلَائِ الْقَوْمِ لاَ یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا﴾
’’اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے او راگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اُٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے۔ اے نبی ! انہیں کہہ دیجئے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔انہیں کیا ہوگیا کہ کوئی بات سمجھتے نہیں ۔‘‘ (النساء: ۷۸)
اسلامی عقائد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بری چیزوں کو نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کیا جائے بلکہ اسے اپنی کوتاہی کا نتیجہ او رعملوں کا وبال تصور کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف خیر کی نسبت ہی ہونی چاہئے۔ چنانچہ احادیث میں یہ دعا آئی ہے :
والخیر کلہ فی یدیک والشر لیس إلیک (مسلم؛۷۷۱)
’’یا اللہ! خیر ساری کی ساری تیرے ہاتھ میں ہے، جبکہ شر کی نسبت تیری طرف نہیں ہوسکتی۔‘‘
اسی طرح مذکورہ بالا آیت سے اگلی آیت یہ بھی ہے جو اسی حدیث کی تائید کرتی ہے کہ
﴿مَا اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَا اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ﴾ (النساء: ۷۸)
’’تجھے جو بھلائی بھی ملتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ۔‘‘
5. تقدیر پر ایمان کا زیادہ تعلق ایمان واعتقاد سے ہے جبکہ تدبیر کا معاملہ عمل اور اسبابِ ظاہری سے تعلق رکھتا ہے ۔ ان میں توازن یوں پیدا کیا جا سکتا ہے کہ کسی واقعہ کے واقع ہونے سے قبل رجحان مختلف تدابیر اپنانے اور ہر ممکن کوشش بروئے کار لانے کا تو ہو لیکن اپنی کوششوں کی کامیابی کا انحصار ربّ تعالیٰ کی مدد پر ہونے کا اعتقاد رکھا جائے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر واقعہ دنیا میں اللہ کی مرضی اور اس کے علم سے ہوتاہے۔ اس عقیدہ کا سب سے بڑا فائدہ مایوسی سے نجات اور دل کا اطمینان ہے۔ کسی بڑی چیز کے مل جانے پر اِترانا اور فخرومباہات کرنا اور کسی چیز کے کھو جانے پر رنج واَلم کا شکار ہو جانا انسانی رویوں میں بڑے نقائص پیداکرتا ہے۔ اور اس عقیدے کو قبول کرلینے سے جہاں ربّ تعالیٰ کی ذاتِ قادر مطلق پر ایمان وایقان میں اضافہ ہوتا ہے وہاں ان انسانی رویوں کی بھی اصلاح ہوتی ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْاَرْضِ وَلاَ فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ