کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 13
بھی ہوئی تھی۔ نماز کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے ربّ نے کیا فرمایا ہے؟لوگوں نے کہا کہ اللہ اوراس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ’’أصبح من عبادي مؤمن بی وکافر فأما من قال مطرنا بفضل اللہ ورحمتہ فذلک مؤمن بي کافر بالکوکب وأما من قال مطرنا بنوء کذا وکذا فکذلک کافر بی مؤمن بالکوکب‘‘ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ،رقم ۴۵۹۶) ’’میرے بندوں میں سے کچھ نے حالت ِایمان میں صبح کی اورکچھ نے حالت ِکفر میں ۔ جس نے تو یہ کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ تو مجھ پر ایمان لانے والے ہیں اور ستاروں کی تاثیر کا انکار کرنے والے ہیں اور جس نے یہ کہا کہ ہمیں فلاں فلاں ستاروں کی مہربانی سے سیراب کیا گیا،وہ میرا انکار کرنے والے اورستاروں پر ایمان لانے والے ہیں ۔‘‘ اس واقعہ سے بھی سابقہ آیات میں موجود عقیدہ کی وضاحت ہوتی ہے۔ کہ ایک مسلمان اور کافر کے طرزفکر میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ کافر مختلف واقعات کے پیچھے مادّی و ظاہری اسباب کو بنیادی عامل قرار دیتا ہے جبکہ مسلمان اسباب کو ثانوی سمجھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہی یہ تھا ، اور یہی اس کی تقدیر تھی۔چنانچہ ایک کافر شخص کسی آدمی کی وفات پر اس کا تمامتر ذمہ دار بیماری کو قرار دیتا ہے جبکہ ایک مسلمان مشیت ِایزدی سمجھ کر اس آزمائش میں پورا اترنے اور صبر اختیار کرنے کی طرف راغب ہوتا ہے اور اسکی زبان سے یہ کلمات ادا ہوتے ہیں : ﴿ اَلَّذِیْنَ إِذَا اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۵۶) ’’ان لوگوں کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم توخود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘ 4. دنیا میں اچھے اور برے تمام کام بنیادی طور پر اللہ کی مشیت سے ہی ہوتے ہیں ۔ تاہم اکثر وبیشترمصائب ومشکلات کے آنے میں انسانوں کی کوتاہیوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔قرآنِ کریم میں نبی اکرم کے بارے میں منافقین کے الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ﴿ وَإِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَإِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا