کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 11
جاری کئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ خود تو ان ضوابط کا پابند نہیں بلکہ ان تمام اصولوں کا خود خالق ہے لیکن دنیا میں اکثر امور انہی ضوابط کے تحت عمل میں آتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا﴾ (الاحزاب:۶۲)
’’ان سے پچھلی قوموں میں بھی اللہ کا یہی دستور رہا اور تو اللہ کے دستور میں ہرگز ردّ وبدل نہیں پائے گا۔‘‘
1. دنیا میں حالات کی تبدیلی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت کیا ہے، اس کی نشاندہی ان آیات سے ہوتی ہے :
﴿مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ إلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّوْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ ﴾(التغابن:۱۱)
’’ کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچتی۔ جو اللہ پر ایمان لائے، اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں ہی دوسرے مقام پرفرمایا:
﴿مَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ وَّیَعْلَمَ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ آیَاتِنَا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ﴾(الشوریٰ:۳۰، ۳۵)
’’تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہاری اپنی کوتاہیوں کا صلہ ہے۔اوروہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے تا کہ جو لوگ ہماری نشانیوں میں جھگڑتے ہیں وہ معلوم کر لیں کہ ان کے لیے کوئی چھٹکارا نہیں ۔‘‘
دنیا میں آنے والے مصائب کی دو وجوہات ان آیات میں ذکر کی گئی ہیں اور یہی دونوں باتیں ہمیں ہر واقعہ کے پس پردہ ملحوظ رکھنا ضروری ہیں ۔ اوّل تو ہرکام اللہ کی مرضی اور منشا سے ہوتا ہے، اس کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ اس آزمائش اور مصیبت کے آنے میں ہماری کوتاہی بھی شامل ہوتی ہے۔
مصائب آنے کی پہلی وجہ جس آیت میں بیان کی گئی ہے ، اس کے اسلوبِ کلام میں جو شدت اور حَـصَـر موجود ہے وہ دوسری آیت میں نہیں ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آزمائشیں آنے کی بنیادی و جہ تقدیر کا لکھا ہونا ہے، جبکہ ہمارے عملوں کی کوتاہی بھی اس کا سبب بنتی ہے۔