کتاب: محدث شمارہ 270 - صفحہ 10
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل اسلام کی اشاعت میں سرگرم کردار ادا کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ ازدواج سے جس طرح قبائل عرب کی سیاست اسلام کے حق میں ہموار کی، اس کے گہرے مطالعے میں بھی ہمارے لئے بڑے سبق موجود ہیں ۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وحفصہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کا ایک مقصد اپنے دو دیرینہ رفیق ِدعوت ساتھیوں (صـاحبَــیـن) سے قربت کا تعلق استوار کرنا اور ان کے ساتھ مساوی احسانِ سلوک کرنا تھا۔ حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے ذریعہ آپ نے ابوسفیان جیسے عدوّ کو اسلام سے قریب کیا اور حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح یہودی قبائل کو حلقہ اسلام میں داخل کرنے کا سبب بنا۔
انبیاء کے طریق دعوت کے مختصر مطالعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو مافوق الطبیعات ذرائع سے غلبہ عطا نہیں کرتا، بلکہ اپنے انبیا کی وحی کے ذریعے اس طرح رہنمائی کرتا ہے کہ وہ اپنی دعوت کو کامیاب بنانے کے لئے زمینی اسباب بھی پیدا کریں ۔
مسلمانوں کو اپنی حالت میں تبدیلی کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کے علاوہ ایسے ذرائع اور وسائل اپنا نے ہوں گے جن کے ذریعے وہ دوسری قوموں پر برتری حاصل کرسکیں ۔ برتری حاصل کرنے کے اس عمل میں پوری ملت کو مل جل کر محنت اور جد وجہد کرنا ہوگی۔ یہی بات قرآنِ کریم میں اس طرح ارشاد فرمائی گئی ہے :
﴿إنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِأنْفُسِہِمْ﴾ (الرعد:۱۱)
’’کسی قوم کی حالت اللہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود بدلنے پر آمادہ نہ ہوں ۔‘‘
اسلام نے صرف اسباب کے حصول پر زور نہیں دیا بلکہ ایک مکمل نظام پیش کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کرہی برتری کو حاصل کیا اور یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ ایمان واعتقاد اور دعا ومناجات کا اس سلسلے میں کیا عمل دخل ہے اور اسباب ووسائل کی کس قدر اہمیت ہے ، اس کے لئے مزید چند نکات پیش خدمت ہیں :
اصل کارساز ربّ ِتعالیٰ ہے!
دنیا میں کاروبار حیات کو باقاعدگی سے چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بعض اصول وضوابط