کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 99
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کی رحیمی نے حرب الفجار سے خصوصی اثر لیا ۔[2] اور اس سے مظلومیت کی حمایت کا احساس اور زیادہ مستحکم ہوا اور مکہ کی وہ انجمن جس کا مقصد مظلوموں کی حمایت تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں سے اور زیادہ مضبوط ہو گئی ۔[3] قدرت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں رحمت کی یہ خصوصیت راسخ کی تھی اور یہی ’ملکہ راسخہ‘ آگے چل کر نبوت اور فرائضِ نبوت کی انجام دہی میں ممد ثابت ہوا۔ قرآنِ پاک نے اسے یوں بیان کیا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظّاً غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ [4]
’’و اللہ کی رحمت سے تو ان کے لئے نرم ہے اور اگر تو سخت کلام، سخت دل ہوتا تو یہ تیرے ارد گرد سے بکھر جاتے۔‘‘
خالقِ کائنات نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لقب سے نوازا۔ رحمت کی بنیادی خصوصیات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں قائم کیا۔ اور اس کے بعد تربیت، ہدایت اور آگاہی سے اسے مستحکم کیا۔ کئی مقامات میں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کا یہ طریق کار اختیار کریں۔ مصائب و آلام میں صبر کریں۔ مشکلات کا بدلہ استقامت سے کریں۔ اور ایذاء رسانی کے مقابلے میں عفو و درگز سے کام لیں۔ ایک مقام پر طریقِ تبلیغ سمجھاتے ہوئے فرمایا:
اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْھُمْ بِالْتِّيْ ھِيَ اَحْسَنُ [5]
’’اپنے رب كے رستے كی طرف حكمت اور اچھے وعظ سے بلا اور ان كے ساتھ اس طريق پر بحث كر جو نہايت عمده ہو۔ ‘‘
دوسری جگہ رحیمانہ طرزِ عمل یوں سکھایا گیا:
اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ [6]
’’(بدی کو) بہت اچھے طریق سے دور کر، پھر تو دیکھے گا کہ وہ شخص کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی ہے، گویا وہ دل سوز دوست ہے۔ ‘‘
اس ودیعت اور تربیت کا اثر آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر کامل طور پر ظاہر تھا۔
[1] مسند احمد ج ۸ ص ۶۲ حدیث ۵۶۷۳
[2] ابن سعد ج ص ۱۲۶
[3] ابن سعد ج ۱ ص ۱۲۸
[4] آل عمران: ۱۵۸
[5] النحل: ۱۲۵
[6] حٰمٓ السجدۃ: ۳۴