کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 98
رحمت کا مفہوم:
رحمت رَحِمَ یَرْحَمُ کا مصدر ہے جس کے معنی بخشش و مہربانی کے ہیں۔ امام راغب لکھتے ہیں[1] کہ رحمت وہ رقّت ہے جو مرحوم کی طرف (یعنی جس پر رحم کیا جائے) احسان کی مقتضی ہو۔ اور کبھی اس کا استعمال مجرد رقّت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنیٰ میں جو رقّت سے خالی ہو جیسے رحم اللہ فلانا جب اس کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو احسان مراد ہو گا اور جب بندے کی طرف ہو تو رقّت مراد ہو گی۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ ترجمان القرآن میں رحمت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’عربی میں رحمت عواطف کی ایسی رقت اور نرمی کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری ہستی کے لئے احسان اور شفقت ارادۃً جوش میں آجائے۔ پس رحمت میں محبت، شفقت، فضل و احسان سب کا مفہوم داخل ہے۔ اور مجردّ محبت، لطف اور فضل سے زیادہ وسیع اور حاوی ہے۔ [2]
رقت کے اس مفہوم میں تو رحمت کے معنیٰ میں پیار، ہمدردی، غمگساری،محبت اور خیر خواہی سب شامل ہوں گے۔ عالم سے مراد ہر وجود پذیر شے کا ایک طبقہ ہے۔ اس طرح اس کائنات میں کئی عالم ہیں اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃٌ للعالمین ہیں اس لئے آپ کائنات کے ہر طبقہ کے لئے رحمت ہیں۔ رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم وہ ذات ہے جسے کائنات کی ہر شے سے ہمدردی اور محبت ہے ہر ایک پر ترس کھاتی ہے اور ہر ایک کی غم گسار ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمت ہونا دو اعتبار سے ہے۔
1. ذاتی اعتبار سے۔
2. نبوت کے اعتبار سے۔
ذاتی رحمت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے اعتبار سے مجسم رحمت تھے۔ خالص انفرادی اور ذاتی معاملات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیات نمایاں رہی۔ مثلاً انسانیت سے ہمدردی اور دکھی اور مظلوم لوگوں کا خیال۔ یہ کیفیت آپ کے دل پر اس طرح راسخ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لمحے بھی اس سے غافل نہ رہے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب مشغلہ ہی انسانیت کی ہمدردی، خصوصاً مظلوم اور دکھی انسانوں کی ہمدردی تھی۔
جناب ابو طالب نے شاید اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
[1] راغب: مفردات القرآن، رحمت ص ۳۴۲
[2] ابو الکلا، ترجمان القرآن، جلد اول۔ زیرِ آیت ’الرّحمٰن الرحیم‘ ص ۶۲