کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 97
، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً‘‘[1] (متفق عليه) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں (۱) ابھی ایک ماہ کی مسافت ہو کہ دشمن پر میرا رعب طاری ہو جاتا ہے (ساری زمین میرے لئے مسجد اور پاکیزہ بنا دی گئی ہے جو جہاں چاہے نماز پڑھے (۳) غنیمت کا مال میرے لئے حلال کر دیا گیا جو پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھا (۴) مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔
(۵) پہلے نبی اپنی قوم کے لئے خاص ہوا کرتے تھے مگر میں ساری دنیا کے لئے نبی ہو کر آیا ہوں۔
مسلم شریف کی ایک حدیث میں چھ چیزیں فرمائی گئی ہیں۔ سب روایات کو جمع کرنے سے مندرجہ ذیل امور حاصل ہوتے ہیں۔
1. نصرت بالرعب۔
2. روئے زمین کا مسجدد طاہر ہونا۔
3. حلّتِ غنائم۔
4. عطائے منصب و شفاعت۔
5. بعثتِ عامہ۔
6. جوامع الکلم ہونا۔
7. ختمِ نبوت۔
8. خزائن الارض۔
رحمۃٌ للّعالمین:
آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات کی سب خصوصیات اپنی جگہ مسلّم ہیں اور ان کا ہر پہلو بے نظیر اور بے مثال ہے۔ ہمارا مقصود ان سب خصوصیات کو بیان کرنا نہیں ہے۔ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جس پہلو کو آج زیر بحث لانا ہے وہ آپ کی ذات کا رحمت ہونا ہے۔ قرآنِ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کا ذکر بڑی اہمیت کے ساتھ کیا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةٍ لِّلْعَالَمِیْنَ [2] ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
آیت کی ترکیب پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات رحمت ہی رحمت ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے رحمت کے سوا کچھ مقصود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا۔ قبل اس کے کہ ہم بیان کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح رحمۃً للعالمین تھے یہ ضروری ہے کہ رحمت کے مفہوم کی توضیح کر دیں۔
[1] صحيح بخاري، كتاب الصلوٰة باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم جعلت في الارض مسجدًا وطھورًا جلد ۱ ص ۲۳۵۔ صحيح مسلم۔ كتاب الايمان۔ حديث نمبر ۳۲۲
[2] الانبیاء: ۱۰۷