کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 94
جب تک رہے ہو ایک، گراں سے گراں تھے تم
اتنا تو سوچنا تھا کہاں ہو، کہاں تھے تم
رکھا نہ تم نے خلق و مروّت سے دل کو شاد سینے میں گاہ بغض بسایا گہے عناد
غیروں کی شہ پہ قوم میں برپا کئے فساد لیکن نتیجۃً نہ بر آئی کوئی مراد
ہو منصبِ بلند تو آگھیرتے ہیں لوگ
معزول دیکھتے ہیں تو منہ پھیرتے ہیں لوگ
تھے کل جو درسِ علم و بصیرت کے واسطے زینہ بنے ہیں کفر و ضلالت کے واسطے
چھانٹا گیا تھا جن کو امامت کے واسطے ایماں فروش ہو گئے دولت کے واسطے
انسانیت سے روح کے رشتے کو توڑ کر
پھرتے ہیں خوار دامنِ قرآن کو چھوڑ کر
غلبہ تمہارے دین پہ دنیا نے کر لیا قبضہ خرد پہ ساغر و مینا نے کر لیا
پر وہ تمہاری آنکھ سے عقبیٰ نے کر لیا بے نور خود کو دیدۂ بینا نے کر لیا
ہاتھوں سے تم نے عدل و مساوات کھو دیئے
جو عرش آشنا تھے خیالات کھو دیئے
حجِ حرم کو عرس کا میلہ سمجھ لیا خیرات کو مصارف بیجا سمجھ لیا
سجدوں کو شرمناک تماشا سمجھ لیا یران ہوں کہ تم نے کسے کیا سمجھ لیا
ڈھولک نے بابِ قلب کی زنجیر کھول دی
خاکِ مزار اُٹھائی تو سونے میں تول دی
تم نے جہادِ راہ خدا ترک کر دیا احساسِ غم، ملالِ جفا ترک کر دیا
یعنی اصولِ مہر و وفا ترک کر دیا سورج سے اکتسابِ ضیا ترک کر دیا
لپکا جو احتسا لٹیروں میں جا چھُپے
تم چھتریاں لگا کے اندھیروں میں جا چھپے
تم فطرتاً ہو افسر اورنگ کے غلام پاکیزگی پہ تم نے تراشے ہیں اتہام
تم نے لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں سے انتقام تم میں نہیں مقامِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام
راضی ہوا نہ کوئی حصولِ بہشت پر
افسوس تم پہ اور تمہاری سر شت پر