کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 91
حقیقت پر یقین رکھنے والا اور اس فلاح کی فکر کرنے والا یہ کیسے گوارا کرے گا کہ اس کے ہم نوع اس فلاح س محروم رہیں اور ہمیشہ کی تباہی مول لیں جب کہ ان ہی انسانوں میں اس کی عزیز ترین اولاد بھی ہے، محبوب رین بیوی بھی ہے، شفقت کرنے والے ماں باپ بھی ہیں، سہارا دینے والے اہل خاندان بھی ہیں، اور بستی، شہر اور ملک کے وہ لوگ بھی ہیں جن کے ساتھ مل جل کر وہ زندگی گزار رہا ہے، جن سے اس کا انسانی رشتہ ہے اور جو اسی کی طرح جان اور تکلیف و راحت کا احساس رکھتے ہیں۔
یہ چار حقیقتیں اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہیں۔ خدا کے رسول ان حقیقتوں کا پیکر تھے۔ وہ ہر وقت قوم کی فکر میں مضطرب اور بے قرار رہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس یقین و ایمان کا ایک معمولی سا حصہ بھی ہمیں مل جائے تو ہماری زندگیاں جمود و سکون سے نا آشنا ہو جائیں اور جوشِ عمل سے اضطراب و بے قراری کا سراپا بن جائیں۔
سوز، ولولہ، شوق اور تڑپ، لگن اور جوشِ عمل داعیٔ حق کے ہتھیار ہیں اور داعیٔ راہِ حق کا سپاہی کسی وقت ہتھیار نہیں اتارتا۔ جس مہم پر اسے لگایا گیا ہے وہ چند دنوں یا چند سالوں کی نہیں ہے بلکہ زندگی بھر کی مہم ہے۔ جب تک سانس باقی رہے اسے اسی مورچے پر لڑنا ہے۔ اس حقیقت سے غافل ہو کر کبھی کبھی داعیانِ حق سستانے بیٹھ جاتے ہیں تو شیطانی وساوس انہیں گھیرتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ شیطان ان کے سارے ہتھیار اتار لیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ غیر مسلح ہو جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو گمراہی اور معصیت میں دیکھ کر انہیں کوئی کڑھن نہیں ہوتی، وہ برائیوں کو پروان چڑھتے دیکھتے ہیں لیکن ان کو مٹانے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ دین کو مٹتا اور اللہ کی حدوں کو گرتا دیکھتے ہیں مگر آگے بڑھ کر خدا کے باغیوں سے نبرد آزما ہونے کا عزم و حوصلہ نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس حالات کی سنگینی دیکھ کر لرزتے رہتے ہیں اور قربانی کے تصور سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر اگر انہیں کوئی متوجہ کرتا ہے تو الٹا اسی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ دل میں جھانکنے کی عادت ختم ہو جاتی ہے اور اپنی اس داعیانہ فسردگی کے اسباب خارج میں تلاش کرتے ہیں۔ مختلف خارجی اسباب کو موردِ الزام ٹھہرانے لگتے ہیں اور اپنے جمود و غفلت کا سرچشمہ ماحول کی سنگینی اور حالات کی رنگینی کو قرار دیتے ہیں۔
دراصل جو چیز اندر ہے وہ اسے باہر تلاش کرتے ہیں۔ جو سبب ان کے اپنے سینوں میں ہے، اسے دوسروں کے اقوال و اعمال میں ڈھونڈتے ہیں۔ اپنے آپ سے غافل ہو کر دوسروں کو نشانۂ ملامت