کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 90
ہدایت پاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسے شخص کا تصوّر کرو جو ایک بے آب و گیاہ لق و دق صحرا میں سفر کر رہا ہو، اس کے اونٹ پر کھانے پینے کا سامان اور ضروریات ہوں۔ وہ اس صحرا میں سستانے کے لئے لیٹ جاتا ہے اور اسے نیند آجاتی ہے۔ اُٹھ کر دیکھا ہے تو اونٹ غائب ہے۔ دن بھر تلاش کرتا ہے لیکن نہیں پاتا۔ مایوس ہو کر تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے کہ اب موت ہی موت ہے۔ اسی حالت میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے جب بیدار ہوتا ہے تو اونٹ پورے ساز و سامان کے ساتھ سامنے کھڑا ہے۔ اس شخص کی خوشی کا اندازہ کیجئے! اسی طرح جب کوئی بھٹکا ہوا بندہ خدا کی طرف پلٹتا ہے اور ہدایت پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس شخص سے بھی کہیں زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ تو خدا کی خوشنودی چاہنے والا پھر اس کے بندوں کی ہدایت کے لئے کیوں بے قرار نہ ہو گا۔ تیسری حقیقت انسانیت کا سچا درد ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ احد کے دن سے زیادہ بھی کوئی سخت دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزرا؟ تو آپ نے اثبات میں جواب دیا تھا کہ جب مکہ والوں سے مایوس ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف والوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے پہنچے۔ لیکن وہاں کے سردار نے غنڈوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔ انہوں نے پیغامِ رحمت کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لہو لہان ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی اور غم کی حالت میں وہاں سے چلے۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الجبال کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ ملک الجبال نے عرض کیا ہ یا رسول اللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں تو میں ابو قبیس اور جبل احمر کو ٹکرا دوں اور اس بستی والوں کو پیس ڈالوں۔ رحمتِ عالم نے فرمایا: ’’دعنی انذر قومی‘‘ نہیں رہنے دو، مجھے اپنی قوم میں عوت و تبلیغ کا کام کرنے دو۔ شاید اللہ تعالیٰ ان کے دل کھول دے یا ان کی اولاد میں سے وہ لوگ پیدا ہوں جو ہدایت قبول کریں۔ کیا تاریخ، انسانیت کے اس سچے درد کی کوئی اور مثال بھی پیش کر سکتی ہے۔ انسانیت کے اس سچے درد کے ہوتے ہوئے انسانوں کو جہنم کی طرف بڑھتا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے بے قرار نہ ہوتے۔ چوتھی حقیقت یہ فکر ہے کہ انسان حقیقی فلاح سے ہمکنار ہو، جہنم سے نجات پائے۔ جہنم سے نجات ہی فلاح ہے۔ یہی انسان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہی انسان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہی اسلام کی جان ہے۔ اسی کے لئے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کا نزول ہوا۔ مَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَا (جو کوئی آتش دوزخ سے بچا لیا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا، یقیناً وہ حقیقی مراد پا گیا) زندگی کی منزل بہرحال آخرت ہے اور انسان چار و ناچار اس منزل سے قریب ہو رہا ہے۔ آخرت میں انسانی زندگی دو خانوں میں یقینی طور پر بٹ جائے گی۔ یا دائمی سکھ یا دائمی دکھ۔ اس