کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 9
سیرت پاک پر نظر ڈالنے کے لئے، ایک نہیں بے شمار دروازے ہیں۔ جن کے ذریعے سے اس کی کبریائی کی سراغ رسانی کی جا سکتی ہے لیکن میں کوشش کروں گا کہ کم سے کم اور قریب ترین راستے سے اس کی عظمتوں کا مطالعہ کراسکوں۔ میں اس امر کی کوشش کروں گا کہ وہ تمام اوصاف و واقعات جو سینکڑوں بار دہرائے جا چکے ہیں اور جن کو صدہا بار آپ کے کانوں نے سنا ہو گا انہیں نظر انداز کر دوں۔ میں کوشش کروں گا کہ کوئی ایسا نقطہ نگاہ آپ کے سامنے پیش کروں کہ اس کے اعمالِ عظیمہ کو یقینی معیار پر رکھ کر آسانی سے جانچ سکے۔ ایسا معیار ہم اپنی طرف سے بنانا نہیں چاہتے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ قرآنِ حکیم نے کیا کوئی ایسا معیار بیان کیا ہے۔ اگر بیان کیا ہے تو اس کے ما تحت، اس کے اعمالِ حسنہ کا کیا حال ہے؟ قرآنی معیار: جب ہم قرآنِ حکیم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس وجودِ گرامی اور زندگیٔ مقدس کے لئے بے شمار معیار ملتے ہیں، جس کو خود آپ نے بھی بارہا سنا ہو گا۔ ہاں! سنا ہو ا لیکن اس کی گہرائیوں تک غور نہ کیا ہو ا۔ اچھا سنو، ان میں سے ایک معیار وہ ہے جو سورۂ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِيْ الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُھَا عِبَادِيَ الصَّالِحُوْنَ 0 اِنَّ فِيْ ھٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِيْنَ 0 وَمَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِلّْعَالَمِيْنَ 0 (۲۱.۷.۱۰۵) اور (دیکھو) ہم نے زبور میں تذکیر و نصیحت کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ زمین کی وراثت انہی بندوں کے حصے میں آئے گی جو نیک ہوں گے، اس بات میں ان لوگوں کے لئے جو عبادت گزار ہیں۔ یہ ایک بڑا ہی پیام ہے۔ اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم نے تجھے نہیں بھیجا ہے مگر اس لئے کہ تمام دنیا کے لئے رحمت کا ظہور ہو۔ اس آیت میں ایک معیار بتایا گیا ہے، ہر معتقد کے لئے جو دیکھ لینا چاہے اور ہر منکر کے لئے جو پرکھنا چاہے۔ رحمۃٌ للّعالمین: اب دیکھنا یہ ہے کہ اس وجودِ گرامی کا ظہور کس ماحول میں ہوا؟ اور اس نے کیا نتائج نکالے؟ میں ابھی آپ کے سامنے چند کارنامے اس وجودِ مقدس کے پیش کروں گا فیصلہ خود آپ کے سامنے آجائے گا۔ ’’وَمَااَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ اس کا ظہور اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمۃٌ لّلعالمین۔ تمام نوعِ انسانی کے لئے رحمت، کسی ایک ٹکڑے، کسی ایک گوشے کے لئے نہیں تمام نوعِ انسانی کے لئے، مشرق و مغرب کے لئے، اسود و احمر کے لئے، کسی ایک خاص قوم کے لئے نہیں۔ اقوامِ عالم کے لئے اللہ کا یہ اعلانِ حق ہے‘ قرآن کے اس اعلانِ حق سے آج تک کوئی منکر بھی انکار نہیں کر سکا، بلکہ تاریخ کے جتنے ابواب و اوراق الٹے گئے‘ اس اعلان کی صداقت و حقانیت واضح‘ بلکہ واضح تر