کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 89
سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار حقیقتیں ہر وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بے قرار رکھتی تھیں: ان میں سے ایک تصوّرِ آخرت ہے۔ ہم جسے جنت کہتے ہیں وہ ہدایت و ایمان کی حقیقت ہے اور جسے جہنم کہتے ہیں وہ کفر و شرک اور معصیت کی حقیقت۔ اس حقیقت کو پاجانے والی ہستی یہ کیسے برداشت کر سکتی ہے کہ اپنے ہم نوع انسانوں کو کفر و شرک میں پا رہنے دے تاکہ ہولناک آگ کا ایندھن بنیں۔ ایسی ہولناک آگ جس کے شعلے کبھی ماند نہ پڑیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا، فَجَعَلَ يَنْزِعُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَقْتَحِمْنَ فِيهَا، فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَأَنْتُمْ تَقْتَحِمُونَ فِيهَا ‏ (متفق علیہ) ’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب ماحول آگ کی روشنی سے روشن ہو گیا تو کیڑے پتنگے اس میں گرنے لگے۔ وہ شخص پوری قوت سے ان پتنگوں کو آگ میں گرنے سے روک رہا ہے۔ لیکن پتنگے اس کی کوشش پر غالب آجاتے ہیں اور آگ میں گھُسے پڑ رہے ہیں۔ پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا لوگو، اس طرح میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر جہنم کی آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ اس آگ میں گھُسے جا رہے ہو۔‘‘ اس اندازِ بیان پر غور فرمائیے ’’میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں۔‘‘ یہ آگ کیا ہے یہی کفر و شرک اور معصیت و نافرمانی۔ تو جو ہستی کفر و شرک کو یقین کی آنکھوں سے جہنم کی ہولناک آگ دیکھ رہی ہو وہ کیسے اپنے اقرادِ نوع کو اس میں گرتا دیکھ کر چین سے بیٹھ سکتی ہے۔ دوسری حقیقت خدا کی رضا کا حقیقی جذبہ ہے۔ عمل کے بہت سے محرک ہو سکتے ہیں لیکن ہر محرک ختم ہونے والا ہے۔ خدا کی رضا اور خوشنودی ایک ایسا محرک ہے جسے دوام حاصل ہے۔ حضور کے وصال کے وقت جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دل شکستہ ہونے لگے اور وفورِ غم میں مختلف قسم کی کیفیتیں ان پر طاری ہوئیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک حقیقت افروز خطبہ دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ أَلا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لاَ يَمُوتُ‘‘( صحیح بخاری: 3668 ) جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بندگی کر رہا تھا وہ خوب سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے جا چکے اور جو اللہ کی بندگی کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلیغ ترین تمثیل میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اس وقت خوش ہوتا ہے جب کوئی بھٹکا ہوا بندہ اس کی طرف پلٹتا ہے اور