کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 88
پڑے رہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی آرزو اور دلی تمنا یہی رہی ہے کہ لوگ فلاح یاب ہوں۔ وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ کفر و شرک کی حقیقت دائمی عذاب ہے اور ایمان و ہدایت کی حقیقت خدا کی رضا اور جنت کی لازوال نعمتیں ہیں۔ یہی یقین اور انسانی درد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت بے چین رکھتا تھا اور اللہ کی طرف سے بار بار تسلی پانے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اضطراب اور فکر مندی میں کوئی کمی نہیں آتی تھی۔ مَا عَلَیْکَ اِلّا الْبَلَاغُ (تمہارے ذمے صرف پہنچا دینا ہے) ’اور یہ فریضہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحسن و خوبی انجام دیا۔‘ ’اب اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔‘ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْیءٍ (الأنعام:۵۲ ) (ان کے حساب اور بد عملی کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہرگز نہیں) وَمَا اَرْسَلْنَٰکَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِیْرًا۔(الأسراء: ۱۰۵)
(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ہم نے صرف انجامِ بد سے خبردار کرنے والا اور انجامِ خیر کی خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے) لیکن ان تسلیوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ ہے کہ خدا سے بھٹکے ہوئے نادانوں کے لئے گھلے جاتے ہیں گمراہی سے بچانے اور ہدایت کی طرف بلانے کا شوق، تڑپ اور ولولہ اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کو ٹھیک ان کے مرض الموت میں وفات کے وقت اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ’’چچا جان اگر آپ اس وقت بھی کلمہ پڑھ لیں تو قیامت کے روز میں آپ کے ایمان کی گواہی دے سکوں گا۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا (الکہف :۶ )
(شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رنج و غم میں اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے اگر یہ لوگ اس کلامِ ہدایت پر ایمان نہ لائیں)
یہ مختصر آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے قراری کی صحیح تصویر ہمارے سامنے رکھتی ہے اور اس چھوٹے سے آئینے میں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ، ولولے، شوق اور بے قراری کو پوری طرح دیکھ سکتے ہیں اور اس آیت میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں:
ایک یہ کہ رسول ایک بے قرار ہستی ہے جسے اپنے مقصد کا شق ہے، سچی لگن ہے اور جسے یہ فکر دامن گیر ہے کہ اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے بھٹکے ہوئے بندوں کو اس سے ملائے۔
دوسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ شوقِ ہدایت میں گھلنا ہی داعی کا حقیقی جوہر ہے اور یہی چیز اللہ کے ہاں اس کی قدر و قیمت کا ذریعہ اور معیار ہے۔
اور تیسری بات یہ کہ اس راہ پر چلنے والے تمام داعیانِ حق کو یہ مقام حاصل کرنا چاہئے اور اپنے شوق و ولولے کا ایسا مظہر بننا چاہئے کہ انہیں بھی یوں مخاطب کیا جا سکے کہ ’’لعلّکم باخعین أنفسکم علی اٰثارھم إن لم یؤمنوا۔۔۔‘‘