کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 84
ہیں وہ بھی لا دینی نظام حیات سے اس معنی میں سازگاری پر قائم ہے کہ وہ مراسمِ دینی کے ادا کرنے کی تربیت پر مشتمل ہے اور مذہبی ذہن نے عملاً لا دینی نظام کے آگے سپر ڈال دی ہے۔ اور کسی گوشہ سے یہ دعویٰ نہیں کیا جا رہا کہ عقائد کو، جو اوہام بن چکے ہیں اور عبادات کو جو رسوم و ظواہر بن چکی ہیں کسی طرح عقائد راسخہ اور عباداتِ صحیحہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان احوال میں ہمارا فرض ہے کہ اپنی ’دین پناہی‘ کا جائزہ لے کر ان مواثرات کا تدارک کریں جن کی بدولت جدید تعلیم یافتہ ذہن یقین و عمل سے محروم ہوا ہے۔ اس دور کے مسائل اس ماحول میں پیدا ہو رہے ہیں کہ فرد اور معاشرے کا تضاد ابھر رہا ہے شہری اور ریاست کے مفادات ٹکرا رہے ہیں، معاشی تخلیق کا عمل حقوق کے تصادم کی بنا پر اس تعاون سے محروم ہو چکا ہے جو تخلیقِ دولت کے لئے ضروری ہے۔ اخلاق اور معیشت میں تصادم اور اخلاق اور سیاست میں تضاد انتہاء کو پہنچ چکا ہے۔ اخلاقی فضیلت اور جمالیاتی مسرت میں ہم آہنگی کا اس دور میں تصور بھی نہیں کیا جا رہا۔ ایمان اور علم اور ایمان اور عمل کے درمیان تضاد ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ دین و دنیا اور دنیا و آخرت کا تضاد انحراف کی راہ پر لے آیا ہے۔ کیا خاتم المرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی تعلیمات سے ان مسائل کو حل کیے بغیر جو اس ماحول میں پیدا ہو رہے ہیں انحراف سے نہیں روکا جا سکتا۔ اگر اسلام یقین کو عمل پر مقدم رکھتا ہو تو کیا اس یقین کو مہیا کرنے کی تدبیر کے بغیر جو عمل سے پہلے ضروری ہے تکمیلِ دستورِ حیات کے نعرے سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اتحاد بین المسلمین کا وعظ کار آمد ہو سکتا ہے۔