کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 83
سے تعلق اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ اس ما بعد الطبیعی قانونِ سعادت و شقاوت سے ربط جس پر قوموں اور تہذیبوں کی بقاء اور فنا کا انحصار ہے، ان تینوں قوانین کا باہم وگر مربوط ہونا۔ ان دو شرطوں پر اس چیلنج کے پورا ہونے کا انحصار ہے۔ اگر ہم قرآن مجید سے ان قوانین کو متعین کر سکیں تو کافروں کی مایوسی کے اعتبار سے ہر یوم ویسا ہی ’’الیوم‘‘ ہو گا جیسا حجۃ الوداع کا دن تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہمارا ان قوانین سے مشرف کیا جانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کی ایک اور اساس ہے۔ یہی وہ قوانین ہیں جن کی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے۔ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللہِ تَبْدِیْلًا وہ تین قوانین یہ ہیں۔ 1. کائناتی قانونِ تضاد: جَعَلْنَا لِكُلٍّ نَبِيٍّ عُدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ 2. اصحابِ میمنہ اور اصحابِ مشئمہ کے درمیان تصادم کا قانون۔ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْ بِالْصَّبْرِ وَتَوَاصَوْ بِالْمَرْحَمَةِ اُوْلٰئِكَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَاھُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَةِ 3. وہ قانونِ سعادت و شقاوت جو اصحابِ میمنہ کے غلبے اور اصحابِ مشئمہ کی شکست کا ضامن ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زكّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا نفسِ انسانی حرص و لالچ سے پاک ہو تو نشوونما کی نفع بخشی کی اور فیض رسانی کی راہیں کھولتا ہے اور حرص و لالچ میں مبتلا رہے تو مزعومہ مفادات پیدا کر کے نفع بخشی اور قبض رسانی اور نشوونما کی راہیں بند کرتا ہے۔ مگر جب سے ہم ’’استعمار‘‘ سے مغلوب ہوئے ہیں ہمارے معاشرے کی اساس دین کے بجائے وطن پرستی کر دی گئی، معیشت حرام حلال کے امتیاز سے آزاد ہو گئی۔ سیاست بھی لا دینی ہو گئی اور نظام تعلیم بھی لا دینی ہو گیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدے کا کوئی اثر نہ معاشرت پر رہا نہ معیشت پر، نہ سیاست پر نہ ثقافت پر نہ تعلیم پر۔ اس صورت حال نے عقیدے کو ایک وہم باطل (Myth) کر کے رکھ دیا اور عبادت کا اثر معاشرت، معیشت، سیاست، ثقافت اور تعلیم پر نہ رہنے سے عبادات رسوم و ظواہر میں تبدیل ہو گئیں۔ اور آج جسے ہم دینی تعلیم کہتے