کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 81
ہدایت محفوظ ہو یا بغیر پیغمبرانہ قیادت کے اصلاحِ احوال مؤثر نہ رہی ہو یا نئی بعثت کے ذریعہ کوئی اعلیٰ تر نصب العین اور اس کے حصول کے لئے اور زیاہ مؤثر طریق کارِ نوعِ انسانی کو پہنچانا باقی رہ گیا ہو۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصود ایک ایسا معاشرہ پیدا کر کے اس کے ذریعہ دین حق کو بین الاقوامی سطح پر غالب کرنا ہے جو نوعِ انسانی کی وحدت کے تصور پر مبنی ہو۔
(یٰاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ) اخلاقی جدوجہد کرنے والے اور روحانی الذہن افراد پر مشتمل ہو (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ) جن کی جدوجہد کا رخ یہ ہو کہ فرد اور معاشرہ ہر قسم کے خوف و غم سے محفوظ رہیں کیونکہ یہی منزل من اللہ ہدایت کا مقصود تھا اور ہے (فَاِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدٰیَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ) اور اس معاشرے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی خالص وفا داری جس میں ’’شرک فی النبوۃ‘‘ کا شائبہ پیدا نہ ہو سکے اس لئے ضروری ہے کہ کلمۂ طیبہ کے جزوِ اول لا الہ الا اللہ پر ایمان لانے سے فرد شرک سے پاک ہوتا ہے اور جزو ثانی محمد رسول اللہ پر ایمان لانے سے اس آیت پاک کے مطابق لِکُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ رسول كے ساتھ غير منقسم وفاداری رکھنے ہی سے معاشرہ اختلال سے محفوظ رہ سکتا ہے اور جس طرح توحید پر ایمان کے بغیر ایک خدا، اس کی ایک طاقت، ایک نظام اور ایک قانون پر ایمان راسخ نہیں ہو سکتا اسی طرح صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو توحید و رسالت اور آخرت اور انبیائے سابقین کی اور قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے کی سند مانے بغیر اور معیارِ عمل اور نمونۂ کمال کی حیثیت سے قبول کیے بغیر معاشرہ اختلال سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
علم سے عمل کا پیدا ہونا ضروری نہیں۔ عمل کے لئے مقصد کا شعور ہونا، حق و باطل کے درمیان تضاد اور تصادم کا محرک عمل ہونا اور معیار کا پیشِ نظر ہونا اور نمونۂِ کمال کا سند ہونا ضروری ہے۔ معاشرہ جن افراد پر مشتمل ہو ان کے پسندیدہ نمونے پر ڈھلنے کے لئے ما بعد الطبیعی اساس کی حیثیت سے ایمان باللہ، ایمان بالآخرت سے عمل کا صحیح رُخ اس وقت تک متعین نہیں ہو سکتا جب تک اس مقصد سے سازگاری کے اصول پر تخلیقِ کائنات متصور نہ ہو اور حق و باطل کے درمیان تضاد و تصادم محرکِ عمل نہ ہو۔ اس محرکِ عمل کے بغیر جاں سپاری اور سرفروشی کی امنگ