کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 79
اسلام اور اشتراکیت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اشتراکیت سرے سے انسان کا کوئی حق تسلیم ہی نہیں کرتی وہ تمام حقوق حکومت کو دیتی ہے۔ جس کا اختیار ہے کہ جس فرد کی چاہے جان لے لے اور جس فرد کا چاہے مال لے لے۔ اشتراکی ممالکت کی مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات انسانی حقوق سے محدود نہیں ہوتے اور وہ جیسا چاہے قانون وضع کر سکتی ہے۔ اس کے خلاف جمہوری ممالک میں مقننہ کے اختیارات محدود ہیں۔ وہ مال لیں تو معاوضہ ادا کریں گی۔ وہ کسی کی جان نہیں لے سکتے سوائے اس کے کہ ایک قانون ہے جس کے ما تحت سوائے مستثنیات کے افراد معاشرہ فوجی خدمت پر مجبور ہوتے ہیں۔ 6. قانون سازی کی ایک واضح مثال ہمیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان احکام میں بھی ملتی ہے جس کے ذریعے انہوں نے حاکم یا قاضی کو نکاح کی تنسیخ کا اختیار دیا۔ قرآنِ پاک میں یہ وضاحت کسی جگہ نہیں کی گئی کہ حاکم یا قاضی کو اختیارِ تنسیخ نکاح حاصل ہے۔ قرآن پاک میں تو صرف نکاح اور طلاق کا ذِکر ہے۔ لیکن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں سے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ حاکم یا قاضی کو یہ اختیار حاصل ہے اور اب تو شرعِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک مسلمہ اصول سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت پاکستان کے قانون کے مطابق ایک نکاح متعدد وجوہات کی بنا پر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر زوجہ کو گزارہ دو سال سے زائد مدت نہ دیا جائے یا خاوند عادتاً بے رحمی کا مرتکب ہو یا عورت کی جائیداد پر قبضہ کرے تو عدالت نکاح کو منسوخ کر سکتی ہے۔ ایک حدیث تو اس بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ ’’اگر نکاح قائم رکھیں اور اس سے بے انصافی ہوتی توہو تو نکاح منسوخ کر دیا جانا چاہئے۔‘‘ اس کے علاوہ دو واقعات ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے ختم کرنے کا خود حکم دیا۔ وہ دونوں واقعات ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی جمیلہ رضی اللہ عنہا نے صرف اس بنا پر نکاح سے خلاصی چاہی کہ اس کا خاوند بدشکل ہے اور وہ اس کے ہمراہ نہیں رہ سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ’’جمیلہ رضی اللہ عنہا وہ باغ، جو اسے ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس نے دیا تھا، واپس کر دے اور ثابت اس کو طلاق دے دے۔‘‘ دوسرا واقعہ ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس کی دوسری بیوی حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ہے اس نے بھی اس بنا پر نکاح سے خلاصی طلب کی کہ وہ ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ کو جو اس نے دیا ہوا تھا واپس دلوا دیا وار ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ حبیبہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دے۔ 7. رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دے کر کہ متوفی اور میراث پانے والے کا دین ایک ہی ہونا چاہئے، دینی رشتہ کی اہمیت ثابت کی اور یہ واضح کر دیا کہ جو ہمارے دین پر نہیں اس کے اور ہمارے درمیان کس قسم کا رشتہ ہے۔ مسلمان کا وارث صرف مسلمان ہو سکتا ہے۔ اور مسلمان غیر مسلم کا وارث نہیں ہو سکتا۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی حکم دیا کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہو سکتا۔ تاکہ کوئی انسان اپنے جرم سے فائدہ نہ اُٹھائے اور اپنے ہر ناجائز فعل کا خمیازہ بھُگتے۔ میں نے چند امور کی وضاحت مثال کے طور پر کی ہے۔ اگر پوری تشریح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی کی جائے تو بہت وقت درکار ہے۔