کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 43
میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں، کسی کا بیٹا گیا تو کسی کا داماد، کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی سلمےٰ بن ہشام اس کے چچازاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ، اور اس کی چچا زاد بہن حضرت ام سلمیٰ، ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ، عتبہ کے بیٹے اور ہندۂ جگر خور کے سگے بھائی ابو حذیفہ، سہیل بن عمرو کی بیٹی سہلہ اور اسی طرح دوسرے سردارانِ قریش اور مشہور شمنانِ اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوے تھے۔
اسی لئے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں سخت ہو گئے اور بعض کے دلوں میں اس کا ایسا اثر ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہو کر رہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام دشمنی پر سب سے پہلی چوٹ اسی واقعہ سے لگی۔ ان کی ایک قریبی عزیزہ لیلیٰ بنت ابی حشمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لئے سامان باندھ رہی تھی اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ آئے اور میری مشغولیت دیکھتے رہے، کچھ دیر کے بعد کہنے لگے ’’عبد اللہ کی ماں جا رہی ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں! خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں بہت ستایا ہے۔ خدا کی زمین بڑی کھلی پڑی ہے۔ اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں گے جہاں خدا ہمیں چین دے۔‘‘ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کے چہرے پر رقّت کے ایسے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور بس یہ کہہ کر نکل گئے کہ ’خدا تمہارے ساتھ ہو۔‘
ہجرت کے بعد قریش کے سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے عبد اللہ بن ابی ربیعہ (ابو جہل کے ماں جائے بھائی) او عمرو بن العاص کو بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش بھیجا تاکہ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ ان مہاجرین کو مکہ واپس بھیج دے۔ اُمُ المومنین حضرت اُمِ سلمیٰ رضی اللہ عنہا جو خود مہاجرینِ حبشہ میں شامل تھیں) یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہرِ سیاسیات سفیر ہمارے تعاقب میں حبش پہنچے۔ پہلے انہوں نے نجاشی کے اعیانِ سلطنت میں خود ہیرے تقسیم کیے۔ سب کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مہاجرینِ مکہ کو واپس کرنے کے لئے نجاشی پر بالاتفاق زور دیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اسے بیش قیمت نذرانے دینے کے بعد کہا کہ ’’ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آگئے ہیں اور قوم کے اشراف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کی درخواست کرنے کے لئے بھیجا ہے یہ لڑکے ہمارے دن سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ایک نرالا دین نکال لیا ہے۔‘ ان کا کلام ختم ہوتے ہی درباری ہر طرف سے بولنے لگے کہ ایسے لوگوں کو ضرور واپس کر دینا چاہئے ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں عیب کیا ہے۔ْانہیں رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ مگر نجاشی نے بگڑ کر کہا کہ ’اس طرح تو میں انہیں حوالے