کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 30
’’دو دیکھ زمین کی چکنائی سے اور آسمان کے اُپر اُوس سے تیرا قیام ہو گا اور تو اپنی تلوار سے زندگی بسر کرے گا اور اپنے بھائی کی خدمت کرے گا اور یوں ہو گا کہ جب تو تردد میں پڑے گا تو اس کی حکومت کا جوا اپنی گردن سے توڑ کر پھینک دے گا۔‘‘ جناب اسحاق علیہ السلام کی اس دعائے خیر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریّت کے حق میں دعائے برکت دونوں نے مل کر اس نسلِ ابراہیمی کی چھوٹی سی شاخ کو بھی نعمتِ الٰہی سے محروم نہیں رکھا۔ کہتے ہیں حضرت ایوب علیہ السلام اسی قوم میں سے نبی ہوئے (نوحہ یرمیاہ ۲۱:۴) اور تہذیب و خرد مندی کا بہرہ وافر اس قوم کو ملا۔ بائیبل کی کتاب عبدیاہ آیت ۸ اور یرمیاہ ۷:۴۹ میں اس کا ذِکر موجود ہے۔ جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے۔ اس سے زیادہ ہم کوہِ شعیر پر طلوع خداوندی کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ خداوند فاران کی چوٹیوں پر جلوہ گر ہوا: 1. فاران بعض مسیحی اور یہودی علماء کے خیال میں وہ میدان ہے۔ جو برسبع کی شمالی حد کوہِ سینا تک چلا گیا ہے، جس کے شمال میں کنعان۔ جنوب میں کوہ سینا۔ مغرب میں ملک مصر اور مشرق میں کوہِ شعیر ہے۔ 2. بعض کے نزدیک قادیش اور فاران ایک ہے۔ 3. کچھ علماء اسے کوہِ سینا کی مغربی نشیب پر قرار دیتے ہیں۔ لیکن عرب کے قدیم جغرافیہ نویس اور بعض علماء مسیحی کی تحقیقات سے یہ ثابت ہے کہ مکہ معظمہ کے پہاڑوں کا نام فاران ہے۔ چنانچہ تورات سامری کا عربی ترجمہ سے آرکیونن نے ۱۸۵۱ء میں شائع کیا۔ اس میں پیدائش ۲۱:۲۱ کے ترجمہ میں فاران کو حجاز میں بتایا ہے۔ ترجمہ کے اصل الفاظ عربی یہ ہیں: ’’وتکن برية فاران (الحجاز) وأخذت له أمّه امرأۃ مِنْ أرض مصر‘‘ (تکوین ۲۱:۲۱) ’’اسمٰعیل بیابانِ فاران واقع حجاز میں سکونت پذیر ہوا اور اس کی ماں نے اس کے لئے مصر سے ایک عورت لی۔‘‘ اس ترجمہ سے ظاہر ہے کہ فاران حجاز میں ہے۔ اور جب تک مسلمانوں نے اس پیشن گوئی کو مسیحی حضرات کے سامنے پیش نہیں کیا۔ اس وقت تک فاران حجاز میں رہا۔ جوں ہی علمائے اسلام نے مسیحی دوستوں کی توجہ اس طرف دلائی وہ اس فاران کو اُٹھا کر سینا میں لے گئے تاکہ بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ثابت نہ ہو۔ مگر جس طرح پہاڑ کو اُٹھانا مشکل ہے اسی طرح فاران کا حجاز سے ٹلنا بھی ناممکن ہے۔ اس لئے ہم اس جگہ اس پر مختصر مگر مدلل بحث کرتے ہیں۔