کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 24
سالارِ لشکر بن کر جب احاطہ شہر سے نکلتے ہیں تو دور تک آپ ان کے گھوڑے کی رکاب تھامے ہوئے انہیں سمجھاتے چلے گئے اور وہ بار بار معذرت کرتے رہے، لیکن آپ کا ضمیر اور حقیقی صحبتِ نبوی سے مجلیّٰ قلب آمادہ نہ ہو سکا کہ ان کی معزرت قبول کی جائے۔ سلمان رضی اللہ عنہ بن اسلام [1]کی کیفیت موّرخین نے جو کچھ تاریخ میں قلم بند کر کے خلف کے لئے چھوڑی ہے، دیدۂ عبرت کے لئے ہمیشہ سبق آموز رہے گی۔ بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ [2]سے اکنافِ عالم میں بسنے والوں سے کون واقف نہیں، کیا ان کا حال و مقام ہمارے درسِ عبرت کے لئے کافی نہیں؟ ایک حبشی اسود، سیاہ فام لیکن مقام کیا تھا؟ صحابۂ کرام خوشامد کے ساتھ ان سے عرض کرتے تھے کہ اذان دے کر ہمارے دلوں کو خوش کرو۔
[1] حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اصفہان کے مضافات کے رہنے والے تھے۔ سلمان فارسی کے نام سے مشہور ہوئے۔ تلاشِ حق میں گھر بار چھوڑا، عیسائی مذہب اختیار کیا لیکن طبیعت مطمئن نہ ہوئی۔ بالآخر نصیبے کی یاوری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچایا اور جمالِ جہاں فدا دیکھتے ہی اسلام قبول کر لیا۔ عربوں نے انہیں پکڑ کر ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا اور تقریباً دس بار خرید و فروخت کا عمل دہرایا گیا۔ بالآخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ دامداد سے غلامی سے نجات پائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی تعریف میں متعدد حدیثیں مروی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ سلمان ہمارے اہل بیت سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً ڈھائی سو برس کی عمر پائی۔ ۳۵ ہجری میں مدائن میں انتقال فرمایا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ ان سے روایت کرتے ہیں۔ [2] بلال بن رباح جو بلالِ رضی اللہ عنہ حبشی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذّن کی حیثیت سے مشہور ہوئے، اُمیّہ بن خلف حجمی کے غلام تھے۔ یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مکہ میں اپنے اسلام کو ظاہر کیا۔ قریش نے ان پر سخت ستم توڑے۔ خود ان کے مالک نے طرح طرح کی اذیتیں پہچائیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی آپ پر بہت شاق تھی۔ آپ کے وصال کے بعد مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے تھے۔ ۲۰ ہجری میں وہیں انتقال فرمایا۔ صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے ان سے روایت کی۔