کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 22
جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی ہے بلاشبہ اللہ علیم و خبیر ہے۔
اپنی پیدائش و خلقت کے اعتبار سے نسلِ انسانی ایک ہے، کسی کو کسی قسم کی کوئی ترجیح نہیں۔ البتہ شعوب و قبائل میں تقسیم اس لئے کر دیئے گئے ہو کہ تمہاری شناخت ہو سکے۔ کیسی شناخت، صرف یہ کہ یہ شخص ہندی ہے، یہ مصری ہے، یہ یورپین ہے، باقی رہا یہ کہ کسی انسان کو اپنی نسل پر دوسرے انسانوں کے مقابلے میں فخر و غرور ہو تو یہ منشائے فطرت نہیں، گمراہی ہے، ضلالت ہے، اس کی تردید بھی فرما دی۔
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکُمْط ذاتی وجاہت و نسلی غرور کوئی چیز نہیں، تم میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو اللہ کے نزدیک سب س زیادہ راست باز و پاک باز ہے۔ کوئی قید نہیں، کوئی تخصیص نہیں کہ کون خصوصیت کے ساتھ اعازاز و اکرام کا مستحق ہو گا۔ مگر وہ جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ راست باز، اور اپنے عمل میں پاک باز ہے۔
پس جتھوں اور گروہوں کی تقسیم اس بنا پر ہے، لعارفوا۔ کس ملک و خطہ کا باشندہ ہے؟ اس لئے نہیں کہ شودر و برہمن کا امتیاز ہو، اس پہچان کے واسطے کہ اس کی نسل فلاں ہے، اس کی نسل فلاں پس ذاتی امتیاز کیوں ہو۔ کیا اس امتیاز کی بناپر کسی کو حقیقت مل جاتی ہے؟ نہیں، ایک منٹ کے لئے نہیں۔ بزرگی اور امتیاز کس انسان کے حصہ میں آیا؟ ایک اور صرف ایک، اس انسان کے حصے میں جو ’’عند اللہ اتقاکم‘‘ کے ماتحت آگیا ہو۔
عرب کا عہدِ جاہلیت:
اب ہمیں وہ گہرائیاں دیکھنی چاہئیں جو اس حکم و حقیقی فطری تقسیم میں مضمر ہیں، خود عرب کا ظہورِ اسلام کے وقت کیا حال تھا؟ عرب کی سرزمین، عرب جاہلیت کا اتنا گھمنڈ تھا کہ ایک ایک بچے کو دعویٰ فضیلت و تمکنتِ خاندان تھا کہ ہم شراوفت بسالت کے پیکر اور اصیل ترین نسل و خاندان کے افراد ہیں، انہیں غرورِ نسلی میں اس درجہ غلو تھا کہ اظہارِ حال و بیانِ حقیقت کے لئے گڑے ہوئے مردے قبروں سے اکھاڑ کر فخریہ بوسیدہ ہڈیوں کی نمود و تشہیر سے بھی باز نہ رہتے تھے۔ اسی قسم کی اور صدہا نسلی غرور کی مثالیں مستند تواریخ کے اوراق میں آج بھی موجود و محفوظ ہیں۔ وقت نہیں ہے، ورنہ میں ان پر زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالتا۔ عقلی و نسلی فخر و غرور کا یہ عالم تھا کہ ایک معمولی بات پر پچیس برس تک خونریزی و خونخواری کا میدان گرم رہا۔ مرتے وقت لوگ اس بارے میں وصیت تک کر جاتے۔
قرآن کے اس اعلان پر ان کی ذہنیت، ان کے نسلی غرور، ان کے طبعی نقائص اور وحشت و درندگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کی تمدنی، معاشرتی و مذہبی ہر قسم کی زندگی بآسانی سمجھ لی جا سکتی ہے