کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 21
بیداری پیدا کر کے ان میں اپنی قیمت و قدر کا احساس پیدا کرنا، جرم ہی ایسا ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بحیثیت قائدِ قوم و پست اقوام کے نمائندے کے ڈاکٹر امبید کار کا یہ اعلان رنگ لائے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ ہندوستان میں تاریخِ انسانیت کا یہ انقلاب یقیناً اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اہم انقلاب ہو گا، اگر ڈاکٹر ابید کار کے استقلال نے نوعِ انسانی کے پاؤں سے غلامی و پستی کی ان بوجھل زنجیروں کو کاٹ ڈالا۔
بیسویں صدی کا یہ اعلان کہ ہر انسان، انسان ہے اور خدا نے ترقی کا دروازہ ہر شخص پر برابر کھول دیا ہے، تقریباً نصف صدی یعنی گذشتہ پچاس برس سے یہ آواز جو مختلف گوشوں، مختلف پلیٹ فارموں سے وقتاً فوقتاً اُٹھتی رہی ہے، بلاشبہ اصلاحِ عقیدہ میں یہ کوشش نہایت قیمتی ہے لیکن شودر کے لئے عام مجرمانہ خاموشی بدستور قائم ہے۔ پس اس لحاظ سے یہ کوشش بھی بے سود ہے، اس سے کیا ہوتا ہے؟ بنیاد پر جو مہر ہو چکی ہے، اس کو کوئی مٹائے۔
ہندوستان کا عہدِ سعادت:
ہندوستان کا یہ اعتقاد کہ ہمارے مذہبی اصول پر فطری مہر لگ چکی ہے۔ اصل زمانہ اس کی نشوونما کا کیا ہے؟ ٹھیک وہی جو ظہورِ اسلام کا زمانہ ہے۔ پیروانِ بدھ بھی تناسخ کے قائل ہیں۔ پس مسئلہ متناسخ جب تک بایں بال و پر موجود ہے، وہ نہیں مٹ سکتی۔ نہ ان کی اصلاحی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے تا آنکہ انسان کا درجہ بحیثیت ایک انسان کے آزاد اور برابر کا نہ تسلیم کر لیا جائے اور نوعِ انسانی میں پستی و بلندی، اونچ نیچ کی تقسیم کو اُٹھا نہ دیا جائے اور ترقی کی راہوں کو ہر شخص پر کھلی ہوئی تسلیم نہ کر لیا جائے۔ پس گویا اسلام کی نمود کے وقت ہندوستان بھی گوناگوں سختیوں اور جکڑ بندیوں میں مبتلا تھا، اپنی ساری سختیوں کے ساتھ ہندوستان میں تاریخ کی اُبھری ہوئی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، ظلم و تعصب، تنگدلی و مذہبی گمراہی کی وجہ سے نوعِ انسانی پر سب سے گہری ضرب کون سی لگائی گئی؟ تاریخ انسایت پر زبردست انقلابی و اصلاحی کیفیت کب ثبت ہوئی؟ ایک انسان کا درجہ بحیثیت انسان کے دوسرے انسان کے برابر تسلیم کب کیا گیا؟ تب جب کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:
یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَاُنْثٰي وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَاعَارَفُوْاط اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقَاكُمْط اِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (۱۳:۴۹)
’’اے لوگو! ہم نے دنیا میں تمہاری خلقت کا وسیلہ مرد اور عورت کا اتحاد رکھا اور نسلوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا، اس لئے کہ باہم پہچانے جاؤ (ورنہ دراصل یہ تفریق و انشعاب کوئی ذریعہ امتیاز نہیں) اور امتیااز و شرف اس کے لئے ہے