کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 20
تصدیق۔ بہرحال فطری حقیقت کے خلاف اس تعلیم نے ذات پات (Caste System) کو اپنے یہاں جائز تسلیم کیا اور بنیادی عقیدہ کے طور پر اسے داخلِ مذہب کیا۔ تفریقِ نسل و تقسیمِ ذات کے اس منظر کو سامنے لاؤ، اور اس کا خلاصہ نکالو۔ خلاصہ یہ نکلا کہ تقسیمِ ذات جس نے اب غلو کر کے عصبیت کا درجہ لے لیا ہے، غرورِ نسل کے نتیجہ، افتراق و انشقاق پر منتج ہوئی ہے۔ وہ ابتداءً پیشوں کی تقسیم اور عمل کی بنا پر ممکن ہے کہ پیدا ہوئی ہو۔ ایک عمل لڑائی کا، ایک عمل تجارت کا، ایک عمل نچلے کاموں کا، یہ تقسیم گویا ایک بہت زیادہ گہری اعتقادی نیت پر تھی، حالاں کہ دنیا نے کہیں اپنے اصول و دنیاوی امور کے لئے بھی نہیں وضع کئے مذہب تو ایک بالاتر اعتقادی اور روحانی چیز تھی۔ پھر ان کی ایک ایسی بھی جماعت پیدا ہوئی جس نے معاشرتی و دینی اصلاح کے سلسلے میں تناسخ کا عقیدہ قائم کیا۔ عقیدۂ تناسخ: تناسخ کیا ہے؟ بار بار آنے کا عقیدہ، کیوں اور کس طرح؟ اپنے کرم کے اعتبار سے عذاب کے طور پر انسان مختلف جسموں میں، جن میں حیوانات اور نجس و ناپاک جانور بھی شامل ہیں، مرنے کے بعد اس کی روح جنم لیتی رہے، عذاب و ثواب کے بارے میں یہ ان کی بنیادی اینٹ تھی۔ کرم اچھے ہوتے ہیں تو کسی اچھے جنم کے لئے اچھا جانور منتخب ہوتا ہے، بلحاظ عہدہ جو خاندان اونچا ہے۔ اس میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ راجہ ہو سکتا ہے، برہمن ہو جا سکتا ہے۔ یہ اس کی معراج اور حدِّ کمال ہے، اگر اس کی ساری عمر پاپوں میں بسر ہوئی ہے تو اسے شودر اور نیچی قوم میں جنم ملے گا اور اگر معصیت اس سے زیادہ ہے تو نجس جانوروں تک میں اس کو داخل ہونا پڑے گا۔ ان کا یہ اعتقادی اصول اور جزا و سزا کا تصور کسی بہت ہی گہرے لیکن گمراہ و خود غرض نے ایجاد کیا۔ مزید جسارت بھی اس درجہ کی کہ کہہ دیا کہ یہ خدائی اصول ہیں اور فطرت نے ان پر مہر لگا دی ہے۔ یہی وہ ناقابلِ فہم اور ناقابلِ تسلیم اصول و ضوابط مذہب تھے۔ جن کے خلاف حال میں ڈاکٹر امبید کار نے آواز بلند کی ہے۔ ڈاکٹر امبید ایک تعلیم یافتہ اور روشن دماغ مدبّر و مفکر ہے۔ اس نے سمجھ لیا کہ جو اصول اور اصول بھی وہ جو مذہب کے نام پر وضع کئے گئے ہوں، ہرگز مذہبی بنیادی اصول ہو ہی نہیں سکتے، نہ فطرت کی ایسی تعلیم ہو سکتی ہے، نہ فطرت کا یہی منشا ہے، یہ یقیناً انسانی تقسیم ہے اور خود غرض انسانوں کا وضع کردہ غلط اور غلط ضابطۂ تفوّق پسندی و قانونِ حکمرانی، ڈاکٹر امبید کار کے اس اعلان عام نے ہندو دنیا میں جو کرب و اضطراب پیدا کر دیا ہے، وہ کسی پر پوشیدہ نہیں اور نفس و غرض کے بندوں کو اس اعلان پر حواس باختہ ہونا بھی چاہئے۔ مدتِ مدید سے جس قوم نے ایک طبقۂ انسانی کو غلام اور بندۂ بے اختیار بنا رکھا ہو ان میں