کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 199
سے مکمل آگہی کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان بن سکے اور رضائے الٰہی کے حصول کی منزلِ مراد کو پہنچ سکے۔ (۳) سورہ بقرۃ میں ارشاد ہوا ہے: وَکَذَالِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَھِيْدًاط ’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں ايك ’’اُمتِ وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو۔‘‘ اس آیت شریفہ میں اُمّتِ مسلمہ کو ’’امت وسط‘‘ قرار دیا گیا ہے، اور امتِ وسط کی حیثیت سے اس کا بنیادی فریضہ لوگوں پر حق کی شہادت قائم کرنا ہے۔ نیز یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب اس اُمّت کے اوپر حق کی شہادت قائم کرنا ہے۔ معلوم ہوا کہ شہادتِ حق کا جو کٹھن فریضہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیاتِ مبارکہ میں انجام دیا، بعینہٖ وہ فریضۃ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر عائد ہوتا ہے اور اس کے امتِ وسط ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے فریضے کو ادا کرے۔ اگر وہ اپنے اس اہم اور بنیادی فریضے کو ادا نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس جرم میں پکڑی جائے گی کہ اس نے اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تمام لوگ اُلٹا اس کے خلاف گواہی دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں جن تک دینِ حق کا صحیح پیغام اس کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے نہ پہنچ سکا ہو گا، بلکہ اس صورت میں تو اس کا یہ جرم، کہیں زیادہ سنگین نوعیت اختیار کر جائے گا جب کہ دینِ حق کی صحیح شہادت ادا کرنا تو ایک طرف اس امت کے بعض افراد یا گروہوں کا غلط طرزِ عمل خدا کے سچے دین کی غلط نمائندگی کرنے اور اس طرح لوگوں کو اس سے برگشتہ کرنے اور دُور ہٹانے کا سبب بنا ہو۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہم نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّتی ہونے کی بنا پر ایک طرف ایک عظیم سعادت سے مشرف ہوئے ہیں تو دوسری طرف ایک بڑی بھاری ذمہ داری کا بوجھ بھی ہمارے کندھوں پر ڈالا گیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سعادت کے سزاوار ٹھہرتے ہی اُس صورت میں ہیں جبکہ ہم اپنی ذمہ داری کو کما حقہ سمجھیں اور شہادتِ حق کے اس فریضے کو کمال احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کریں جو اُمّت مسلمہ میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے اوپر عائد ہوتا ہے۔ اس فریضے سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے ہماری اوّلین ضرورت یہ ہے