کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 19
ایک گوشہ اس سلسلہ میں تاریخ کا اور آپ کے سامنے بے نقاب کر دوں کہ موجودہ مسیحی دنیا انجیل کو، اور موسائی تورات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سبب ہے نوع انسانی کی تہذیب و تمدن اور امن و امان سے آشنا بنانے کا، حالانکہ ان کے اپنوں تک کی تاریخ ان کے اس قول کی تصدیق نہیں کرتی، جس کا ایک نمونہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں، مزید توضیح کا نہ جلسہ حامل ہے، نہ وقت مقتضی، نہ میری صحت کی اجازت اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے افق پر بجز دستِ محمدی کے کوئی دوسرا ہاتھ نہیں۔
قدیم ہندوستان:
جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے ہندوستان ایک قدیم تمدن کا گہوارہ ملک ہے۔ اس کی تمدّن و تہذیب کی اولیت و عروج تاریخِ عالم کے نزدیک تمام ممالکِ آباد و سطح ارضی سے ممتاز اور سابقون الاوّلون میں شمار ہوتا ہے۔ تاریخ نے اس کے حالات کو جب سے احاطہ کیا ہے، اس کے دورِ اوّل پر جو روشنی پڑتی ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ برہمنی رسم و رواج وہ طریق حکمرانی تھا کہ جس کا نظم و نسق اور غزل و نسخ برہمن مدبّرین اور پیشواؤں کے ہاتھوں رہا۔ اس تہذیب و تمدّن کے آثار اب بھی بعض مقامات سے ظاہر ہیں۔ بعض کتابوں میں درج ہیں اور متعدد زبانوں پر جاری برہمنی تہذیب کو جب زوال آیا تو گوتم بدھ کی تعلیمات اور اس کا مذہب ملک و مذہب پر غالب آیا اور تمام ہندوستان میں پھیل گیا۔ ابھی یہ تہذیب و تعلیم اپنے پاؤں اور اس کا مذہب ملک و مذہب پر غالب آیا اور تمام ہندوستان میں پھیل گیا۔ ابھی یہ تہذیب و تعلیم اپنے پاؤں مضبوط نہ کر سکی تھی کہ پھر انقلاب ہوا، کشت و خون کا بازار گرم، اور دار و گیر، رسن و زنجیر کی ہنگامہ آرائی مدت تک رہی، بالآخر یہ بلوہ ایک نئے مذہب و نئی تہذیب کے جنم پر منتج ہوا جو برہمنی دور کی ایک ترقی یافتہ تحریک و تعلیم تھی۔ یہ تحریک شنکر اچاریہ کی تحریک تھی اور اس کا ظہور دکن میں ساتویں صدی عیسوی میں ٹھیک اس وقت ہوا جو اسلام کے ظہور کا زمانہ تھا۔
اس تعلیم نے بھی برہمنی قوانین کے مطابق تقسیمِ ذات کو تسلیم کر لیا۔ نوعِ انسانی کی اس تقسیم پر، جو بالکل غیر فطری و غیر قدرتی تقسیم تھی، اقوام میں برتری و فوّق کا مُردہ تخیل پھر عود کر آیا، نسلی امتیاز اصلی اور عملی اعزاز بے اصل و بے قدر ہو گیا۔ حالانکہ شرف و خصوصیت، عمل پر موقوف ہے، نسل و غرورِ نسل کوئی چیز نہیں، بخلاف اس کے اسلام نے اعلان کیا ہے کہ جسمانی و روحانی اوج و عروج عمل پر منحصر ہے نسل کی کوئی گنتی نہیں۔ عمل میں جو شخص یا جماعت جتنی پاکباز ہے اس کا درجہ بھی اتنا ہی بلند و بالا ہے اِعْمَلُوْا الَی دَاودَ [1] میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ اور اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقَاکُمْ اس پر ایک مہر
[1] آیت اور اس کا ترجمہ یہ ہے: اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاودَ شُکْرًا وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرِ (۳۴۔۱۲) اے آل داود شکر گزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں۔