کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 187
گئے۔ اور پوری قوم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ’صادق‘ اور ’امین‘ مشہور ہو گیا۔ آپ کی راستبازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فرد بشر کے دل پر بیٹھ گیا[1]اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مالدار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے۔ بلکہ انہوں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاجر امین کا لقب دیا تھا۔
ان دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون خدیجہ بنت خویلد تھیں۔ جو دوبارہ بیوہ ہو چکی تھیں۔ انہوں نے باپ سے کثیر جائیداد ورثے میں پائی تھی۔ اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول
[1] آ پ کی امانت و دیانت کی متعدد مثالیں ہمیں آپ کی سیرتِ مقدسہ میں نظر آتی ہیں۔ مثلاً نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد جب آپ کو اعلانِ توحید واشگاف الفاظ میں سنانے کا حکم ہوا تو آپ کوہِ فا پر چڑھ گئے اور پوری قوم کو ندا دی۔ جب عوام الناس اکٹھے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک حملہ آور فوج چلی آرہی ہے۔ تو کیا مجھ پر اعتماد کرو گے۔‘‘ تمام مجمع بیک زبان پکارا۔ ’’کیوں نہیں ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے پایا ہے۔‘‘
قبیلہ اراش کے ایک شخص کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔ وہ کسی کام کے لئے مکہ آیا۔ اس کے پاس ایک اونٹ تھا۔ ابو جہل نے اس سے اونٹ کا سودا کر لیا۔ مگر قیمت ادا کرنے میں لیت و لعل کی۔ وہ مکہ میں اجنبی تھا۔ اس لئے یکے بعد دیگرے اشرافِ مکہ کی مجلس جمی ہوئی تھی، فوراً وہاں پہنچا۔ اور تمام اہل مجلس سے اپیل کی کہ مجھ جیسے بے آسرا مسافر کو کوئی شخص ابو جہل سے اونٹ کی قیمت دلا دے۔ مگر تمام مجلس میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہو سکی۔ آخر ان میں سے ایک شخص ازراہِ تمسخر بولا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی و امی) کے پاس جاؤ تمہیں قیمت وصول ہو جائے گی۔ (ان دنوں ابو جہل کی عداوتِ رسول اپنے پورے جوبن پر تھی۔ وہ غریب فی الفور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ اور ماجرا بیان کر کے مدد کی درخواست کی۔ آپ فوراً اس کے ساتھ چل دیئے ابو جہل کے مکان پر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابو جہل نے دروازہ کھولا۔ اس شخص کو آپ کے ہمراہ دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کا حق اسے ادا کر دو۔ ابو جہل نے بے چون و چرا فوراً قیمت ادا کر دی۔ بعد میں ابو جہل نے شرکائے مجلس سے اعتراف کیا۔ ’’اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا و اس کی آواز سن کر یکایک مجھ پر ناقابلِ بیان رعب طاری ہو گیا۔