کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 18
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اربابِ کلیسا کے ظلم و جبر کے باوجود مصلح لوتھر کی دعوت پائمال نہ کی جا سکی، مخالفت و شرارت کے باوجود یہ صدا اُٹھی، بلند ہوئی اور پھیلی تا آنکہ تقریباً نصف مسیحی دنیا پر چھا گئی۔
ساتویں صدی عیسوی کا عہدِ سعادت:
لیکن سوال سولہویں صدی عیسوی کا نہیں۔۔۔ ساتویں صدی عیسو ی[1] کا ہے جبکہ یہ اصلاح و دعوت ہی فنا ہو گئی تھی، شہنشاہ لوئی اور ایڈرین (Adrian) نے کلیسا کے اختیار میں سب کچھ دے دیا تھا، اور ہر طرف پوپ و چرچ کا دور دورہ تھا، ظلم و شرارت، طغیانی و سرکشی اپنی ہولناکیوں اور ہوسناکیوں کے ساتھ پھیل پڑی تھی، کہ ناگاہ صحرائے عرب کے دامن سے ایک مصلح صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بلند ہوتی ہے، یہ پکار محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدا تھی، یا ’’اہل الکتاب تعالو إلی کلمۃ سواء بیننا وبینکم أن لّا نعبد إلا اللّٰه ‘‘ دراصل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صدا جو اللہ تعالیٰ کی آوازاس کی تائید و نصرت کے ساتھ بلند ہوئی تھی، رافتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور رحمتِ الٰہی کا ایک عام اعلان تھا۔ بے چین و مضطر دنیا کے لئے ایک پیامِ امن تھا، اشرار کے لئے ایک طبلِ جنگ تھا، مسیحی دنیا میں ایک برگزیدہ کی دعااور دوسرے مقرّب کی بشارت کے ظہور کی نشانی تھی۔ قبولِ عام بڑھ بڑھ کر قدم لیتی ہے، حقانیت و سچائی کے متلاشی جوق در جوق آتے ہیں، تسکین و تشفّی ہوتی ہے، خیالات میں، اعتقادات میں تبدیلی ہوتی ہے، سعید ارواح پرچم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے جمع ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ’’یدخلون فی دین اللہ افواجاً‘‘ کی شان متشکل ہوتی ہے۔ ذاتِ نبوی کا ظہور، قرآن کا نزول، اپنے جلووں کی تابانی سے مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب، کوہ صحرا، ودشت و جبل منور ہو رہے ہیں۔ عجب ساعت ہے، عجب عہدِ سعادت ہے، عجب خیر و برکت اور امن و امان کا دور دورہ ہے، جان محفوظ، مال محفوظ، عزت محفوظ، آبرو محفوظ۔
تاریخِ عالم کی مسلمہ حقیقت:
خونخوار و باطل پرست، یا سایۂ رحمت میں آگئے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے۔ امن و آسائش کی بسائی ہوئی یہ نئی دنیا جس ذات کی رہینِ منت ہے، اس کا نام محمد رسول اللہ ہے۔ اور تنہا میں نہیں کہتا۔ اپنی طرف سے میں نہیں کہتا، تاریخِ عالم کی اور بے مہر تاریخِ عالم کی مسلمہ و مصدقہ حقیقت بیان کرتا ہوں جس کو بے گانوں اور اغیار نے بھی مانا اور تسلیم کیا ہے۔
[1] ساتویں صدی عیسوی بعثتِ نبوی کے لحاظ سے ہوئی وگرنہ ولادات با سعادت تو چھٹی صدی عیسوی (یعنی ۵۷ء کا عظیم الشّان واقعہ ہے)