کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 17
یا چرچ ریفارم کے نام سے دی؟ سولہویں صدی عیسوی میں، اس بارے میں، لوتھر کی پہلی آوز تھی جو راس راہ میں اُٹھی، تمام مؤرخ متفق ہیں کہ عمل و علم کی راہ میں لوتھر کی آواز پہلی روشنی تھی جو کلیسا کی سیہ کاریوں، ستم رانیوں کے بالمقابل عوام کے سامنے آئی، لیکن دیکھو کہ اس تعلیم کا ما حصل کیا ہے؟ لوتھر نے للکارا، دین کی تعلیم کے بارے میں چرچ کا رویہ غلط ہے! اس کو خلش پیدا ہوئی کہ حق کا معیار اور سچائی کا راستہ کون سا ہو سکتا ہے، کتاب اللہ یا پوپ کی ذاتی رائے اور اس کے احکام؟ دراصل اس کی ابتداء یوں ہوتی ہے کہ پوپ نے مغفرت کے پروانے دینے شروع کئے، یعنی جتنی معصیت کریں، کوئی فکر نہیں، جتنا بھی کوئی فسق و فجور، عیش پرستی، نفس پروری کرنا چاہے کرے، پوپ سے مغفرت کے پروانے نقد قیمت دے کر خرید لے، اور فکرِ عقبیٰ سے آزاد ہو جائے، مغفرت کی یہ نقد تجارت، اتنی بری اور بڑھی ہوئی تھی اور یہ کہنا قطعاً مبالغہ نہیں بلکہ امرِ واقع ہے کہ تمام گوشہ ہائے ملک میں باقاعدہ ایجنٹ پوپ کے پھیل گئے تھے اور انہیں پوپ کے پروانے کے ما تحت ہر قسم کے سفید و سیاہ کا اختیار تھا۔ نظامِ عالم یکسر درہم برہم ہو گیا تھا۔ احکام و قوانینِ الٰہی پسِ پشت ڈال دیئے گئے تھے، کلیسا کے اربابِ حل و عقد، بست و کشاد اپنی من مانی کارروائیوں کا ایک جال تمام ملک میں بچھائے ہوئے تھے اور دادِ عیش دے رہے تھے۔ ان کے خود ساختہ قوانین نے ایک اصولی شکل اختیار کر لی تھی، جس کی پابندی ہر متنفس کے لئے لازمی تھی۔ لوتھر نے اسی کے خلافِ علم بغاوت بلند کیا، بحث و مناظرہ کی نوبت پہنچی، اربابِ کلیسا کے شکنجے میں تنگ آئے ہوئے لوگوں نے جن کی تعداد قلیل تھی، لوتھر کا ساتھ دیا، مگر اس طرح کہ خوف و ہراس سے ان کا برا حال تھا۔ خوف بھی ان کا جو زمین پر مظہرِ خدا ہونے کے مدعی تھے، اختیارِ مکمل کے مالک تھے۔ پھر ان کے کار پردازوں کا، پھر ان کے متبعین کا، بدقسمتی سے جن کی تعداد شمار سے خارج تھی۔ بہرحال بحث یہ تھی کہ احکام کس کے قابلِ قبول ہیں؟ چرچ کے یا انجیل کے؟ لوتھر نے کہا نہیں ہم اللہ، اس کی کتاب اس کے رسول کے فرمان کی فرمانبرداری کے مکلف ہیں، ایمان یہی ہے۔ خدا اور اس کے رسول کے مان لینے کے معنی یہی ہیں، کسی انسانی رائے کو، خواہ وہ انسان کتنا ہی عظیم المرتبت کیوں نہ ہو، اگر صاحبِ وحی نہیں ہے تو اس کا کوئی درجہ ماننے کے لئے تیار نہیں، ہمارا اعتقاد اللہ اور اللہ کی کتاب پر ہے، اور عقلاً ہونا بھی چاہئے۔ کلیسا اور کلیسا پرستوں میں ایک جلسۂ عام کے اندر لوتھر کی یہ تقریر آگ کا کام کر گئی، طے کر لیا گیا کہ اس نئی دعوت و اصلاح کو پامال کرنا چاہئے، خون بہا اور بے شمار کلیسائی تلواریں کھنچ گئیں اور ادنیٰ اشتباہ پر لوگوں کی زندگی موت سے تبدیل ہو گئی۔ سر قلم ہوئے۔ گھر کے گھر برباد کر دیئے گئے۔ بستیاں کی بستیاں ویران۔۔۔۔ کر دی گئیں۔ تاہم تاریخ کی حقیقت سے نکار نہیں کیا جا سکتا۔