کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 16
ہے، میں وہی تمہیں بتاؤں گا۔ عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کی روایت ہے جو پہلے عیسائی تھے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام کے عیسائیوں کے وفد کے ساتھ میں بھی حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتراض پر میں نے عرض کیا کہ یہ بات تو ٹھیک نہیں ہے کہ باہم پادریوں اور راہبوں کو رب بنا لیتے ہیں۔ فرمایا کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ جس چیز کو اللہ نے تم پر حلال کیا تھا، تمہارے احبار و رہبان نے اپنے نفس کی خاطر اس کو حرام کر دیا ہے اور جس چیز کو اللہ نے تم پر حرام ٹھہرایا تھا، انہوں نے اپنی لذتِ چشم و جسم کے لئے اسے حلال کر لیا ہے اور اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قانونِ حلال و حرام کو بالکل بدل ڈالا ہے؟ عدی نے کہا، ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔ فرمایا، بس یہی مطلب رب بنا لینے کا ہے۔ ناقص کو کامل سمجھ کر اختیار کر لیا ہے اور یہ اس لئے کہ جو اوصاف ہمیں اللہ کے لئے خاص رکھنے چاہئیں گے انسانی عقل کے ہاتھ میں تسلیم کر لیے گئے۔ ذرا غور تو کرو کیا یہ چیز خود نیچر کے بھی صاف و صریح خلاف نہیں ہے؟ اچھا یہ تمام تصرفات جو تم نے دینِ الٰہی میں کر لیے ہیں، کیا اس کی دلیل بھی تمہارے پاس ہے؟ اللہ کے کسی کلام میں، کسی نوشتۂ وحی میں، کسی پیغمبر کی تعلیم میں، رسولوں کی کسی تبلیغ میں، کہیں سے بھی کوئی دلیل ہمیں دکھاؤ کہ چرچ کے اربابِ اختیار نے احکامِ الٰہی کو نہیں بدلا، اور وہ اس کی بے چون و چرا تعمیل کر رہے ہیں۔ مگر تم نہیں دکھا سکتے، بلکہ اس کے برخلاف ہزار ہا سند و دلیل بتائی جا سکتی ہیں کہ پوپ اور دوسرے احبار و رہبان اربابٌ مّن دون اللہ کے زعمِ باطل میں نت نیا قانون، فطرت و نیچر و حکمِ الٰہی کے خلاف وضع کرتے اور امت پر مسلط کرتے رہے ہیں۔ مگر سرِ دست میں ان گوشوں میں نہ جاؤں گا۔ یورپ کا دورہ نشأۃِ ثانیہ: بہرحال، چند قدم اور آگے بڑھیے، نتیجہ بہت جلد سامنے آجائے گا، مؤرخین ازمنۂ وسطیٰ کہتے ہیں کہ سولہویں صدی عیسوی، اصلاحاتِ چرچ کا اور امنِ عالم و تغیرِ معتقدات کا زمانہ ہے، جس میں پوپ، شاہ اور عوام کے لئے قوانین نافذ ہوئے اور اس دور کو نشأۃِ ثانیہ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسے موجود دور سے بہتر کہتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخ کی دہرائی ہوئی اور پامال حقیقت ہے اور جسے میں واقعات و تفاصیل کے ساتھ دہرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا، تم کالج کے طالب علم ہو تمہارے سامنے لائبریری کی کتابیں موجود رہتی ہیں کسی ایک تاریخ کو اُٹھا کر دیکھ لو کیا اس میں مندرج واقعات و حقائق اس کی تائید کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ خونریزی کے حوادث، ظلم کی کہانیوں اور ستم رانیوں کے احوال سے ہر تاریخ بھری پڑی ہے، پوپ اور چرچ نے جتنے ستم یہودیوں اور عام باشندگانِ ملک پر اس وقت توڑے، شاید ہی کسی زمانے میں ایسا ظلم ہوا ہو، اور یہ سب مذہب و اصلاحِ عقیدہ کے نام پر ہوا اور میں بے سند و بے دلیل نہیں کہتا، بلکہ یہ مؤرخینِ یورپ کے قلم کے بکھرے ہوئے حقائق ہیں۔ کلیسا کا مصلح: غور کرو، سب سے پہلی دستک کون سی تھی جو یورپ کے سامنے علم و عقل نے اصلاحِ کلیسہ