کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 15
مسیحی دنیا کے نام اسلام کا پیام:
کوئی غیر طرف دار مورخ ہو، آئے اور جانچے، کیا سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد جو اس وقت کی حالت کا نقشہ کھینچ رہا ہے: وَیَضَعُ َنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ [1] کی صداقت سے انکار کر سکے گا؟ اسی قدر نہیں قرآن نے جابجا اس طرف اشارہ کیا ہے۔ یمن کے بشپ و بطریق کی معرفت مسیحی دنیا کو جو پیام دیا تھا، کیا تھا؟ تم نے اگر کبھی قرآن کھول کر پڑھا ہو گا اور ساتھ ہی غور کرنے کی تکلیف بھی کی ہو گی تو سورۂ آلِ عمران میں اس پیام کو پایا ہو گا:
قُلْ يَا اَھْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰي كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِه شَيْئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ (۳:۶۴)
’’(اے پیغمبرؐ! تم (یہود اور نصاریٰ سے) کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! (اختلاف ونزاع کی ساری باتیں چھوڑ دو اور) اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لئے یکساں طور پر مسلم ہے۔ یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ کسی کی ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔
ہم میں سے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کرے گویا خدا کو چھڑ کر اسے اپنا پروردگار بنا لیا ہے۔
یہود و نصاریٰ دونوں جماعتوں سے خطاب ہے، طلب کسی اور چیز کی نہیں ہے، دنیا کی امداد، نہ ذات کے لئے فائدہ کی، بلکہ مطالبہ ہے۔
اشتراکِ عقیدہ کے لئے، توحید پر اتفاق کے لئے، یعنی اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ، خدا کی چوکھٹ کے سوا کسی انسانی بارگاہ پر خواہ وہ ظاہری ٹھاٹھ میں کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو، عبادت کی پیشانی نہ جھکائیں۔
دوسرے ’’لَا نُشْرِکَ بِه شَیْئًا‘‘ عقیدتاً بھی، باطن میں بھی اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گویا ظاہر ہو تب، باطن ہو تب، دونوں حالتوں میں اسی کی عظمت، اسی کی کبریائی، اسی کی الوہیت کے سامنے، نیاز کا سر یا اعتراف کا قلب جھکے، اور تمام باطل و خود ساختہ معبودوں اور مدعیانِ جبروت طاقتوں کو ٹھکرا دیا جائے، خواہ یہ آواز چرچوں سے بلند کی جائے، یا تخت ہائے شہنشاہی سے۔ اور یہ کہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بنائیں ’’وَلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ‘‘
اربابٌ مّن دون اللّٰہ کی تفسیر:
قرآن کی بولی میں رب بنا لینے کا کیا مطلب ہے؟ میں خود نہیں بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جو مطلب بیان بیان فرمایا ہے اور اس سے جو مراد لی
[1] سورۂ اعراف کی آیت نمبر 157، جس کا ترجمہ صفحہ 10 پر پیش کیا گیا۔