کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 140
٭ کہیں تذکیر بایام اللہ سے کام لیا اور گزشتہ قوموں کے واقعات کی طرف توجہ دلائی۔ ٭ کہیں سیر فی الارض کو سبق آموزی کا ذریعہ بنایا۔ ٭ اصحابِ نظر و تدبر کو غور و فکر کرنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے کی دعوت دی اور عقلی و منطقی انداز میں اعمال کے عواقب و نتائج کی طرف توجہ دلائی ہے۔ قرآنِ حکیم کی اس رہنمائی کے ساتھ بلاشبہ ہمارے سامنے مختلف زبانوں کے اس اعلیٰ پائے کے لٹریچر کی مثالیں بھی موجود ہیں، جن سے اس زبان کے بولنے والوں کے ذہنوں میں انقلاب پیدا ہو گیا ہے، جن سے لوگوں کی قسمتیں بدل گئی ہیں، جن سے قومی سیرت کی تعمیر کا کام لیا گیا ہے، جن سے قوموں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے اور آذادی کے حصول اور قوموں اور ملکوں کی تعمیر و ترقی میں ایک قوّتِ محرکہ کا کام لیا گیا ہے۔ اور پھر نظم و نثر کے جن اسالیب کو اپنانے اور اختیار کرنے کی ہم دعوت دیتے ہیں وہ کوئی ایجاد و اختراع نہ ہو گی بلکہ اردو میں ہی اس کی مثالیں موجود ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں زیادہ خوش اسلوبی کے ساتھ اور سائنٹیفک طریقے پر اپنایا جائے۔