کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 14
کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
وہ انسان جن کی عقل کے دروازے پر قفل لگ گیا اور جن کی قوّتِ ادراک نابود ہو گئی، طرح طرح کے توہماتِ نفسانی کا شکار ہو گئے۔ آسیب زدگی ان کے ہر ہر قدم، ہر ہر فعل و قول سے واضح ہے۔ کیا وہ اس قابل ہیں کہ عقولِ انسانی ان کے سامنے جھک جائیں؟ اور اگر عقلیں ان کے سامنے جھک جائیں تو کیا۔ یہ ممکن ہے کہ عقولِ انسانی ایک لمحے کے لئے ترقی و نشوونما پا سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔۔۔۔ یہی حال تھا جب کہ قوانینِ الٰہی و شریعتِ نبوی مٹا ڈالی گئی تھی، اغراض و ہوائے نفس کا دور دورہ تھا۔ پس غور کرو، جب عقل بالکل بیکار کر دی جائے، جب کتاب اللہ میں تحریف کر کے انصاف کے دروازے بند کر دیئے جائیں‘ جب معیارِ حق و صداقت ، چند آسیب زدہ انسانوں کے نفس پرورانہ احکام، فیصلے ہوں، تو نتیجہ کیا ہو گا؟ یہی حقیقت تھی، چرچ روما کی، ایک آسیب زدہ انسان کے ہاتھ میں سر رشتۂ حکم آگیا تھا اور نظامِ سلطنت فطری آزادیوں پر نہیں، ظالمانہ قوانین پر تھا۔ جب تم نے یہ اصل تسلیم کر لی تو نتیجہ نکال لو گے کہ ہر قسم کے ذہنی ارتقا، عقلی نشوونما، یکسر و یک قلم رگ گئی تھی۔ یقیناً افرادِ انسا ن کی ترقی رک گئی تھی، کیوں؟ تمام دینی و دنیوی معاملات کا دار و مدار چند انسانو اور پوپ، ماؤف الدماغ پوپ پر تھا۔ یہود و نصاریٰ سب کے سب یکساں گمراہی میں مبتلا تھے۔ یہ تھا مسیحی نظامِ مذہب کا حال، جس نے نسلِ انسانی کی عقل ترقی، رشد و ہدایت کو یکسر روک دیا تھا، ضروری نہ رہا تھا کہ یہ دیکھا جائے کہ انجیل کا کیا مطلب ہے۔ اس کے سمجھنے اور اس کے فیصلے کا اختیار پوپ یا اس کی مجلس کو تھا اپنی عقل کو تج کر، کتاب اللہ سے منہ موڑ کر! انسان، چند انسانوں کے ہاتھ میں جکڑ بند ہو گیا تھا۔ پوپ کی طرف سے احکام نافذ ہوا کرتے تھے کہ ہر انسان بطورِ خود معاملاتِ شرع میں غور و فکر کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ کام چرچ کا ہے، عوام کو اسی کے تابع رہنا چاہئے۔ اور یہی ہے وہ حقیقت جو آج بھی یورپ میں بطورِ اصل کام کر رہی ہے، عقولِ انسانی کو معطل کر کے اس کا فرمان یہ تھا کہ جس کو میں حلال کروں وہ حلال اور جس کو میں حرام کروں وہ حرام۔ یہی تھی اور ہے وہ بنیادی خرابی جو نسلِ انسانی کی ترقیات ذہن و عقل کو کھائے جا رہی تھی، اور ان کے نشو و ارتقا کی جڑوں کو کھوکھلی کر چکی تھی اور اس کی طرف قرآنِ حکیم نے ’’اَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللہِ ‘‘[1] والی آیت میں اشارہ کیا ہے۔ یہ اعجاز و بلاغتِ قرآن ہے کہ بڑے بڑے اہم واقعات و حالات کو مختصر و جامع الفاظ میں بیان کر کے وقت کا نقشہ کھینچ دیتا ہے۔
[1] سورۂ توبہ کی آیت نمبر ۳۱ کا ابتدائی حصہ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو پروردگار بنا لیا۔‘‘