کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 139
4. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تواتر و تسلسل کے ساتھ ہو۔ ان تبدیلیوں کے بغیر کوئی ذہنی، فکری اور دیرپا انقلاب پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت ہمارے پیشِ نظر نقصد، سیرت پڑھا دینے اور چند معروف و مشہور باتوں کو رٹا دینے کے بجائے سیرت کی تعمیر ہونی چاہئے اور سیرت کی تعمیر اس وقت ہو سکتی ہے جب تبدیلی کا جوش اندر سے پیدا ہو نہ کہ بیروی دباؤ سے۔ (۴) یہاں ہم ایک غلط فہمی کے امکان کو بھی رفع کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح، غیر مسلموں میں اسلام اور سیرتِ نبوی کی عوت اور مقاصدِ دینی و ملّی کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقت کے معیاری اور معروف اسالیب بیان کی ضرورت ہے تو ہمارے سامنے ادب کے وہ دلچسپ اور محبوبِ عوام لٹریچر نہیں ہوتا جو عشقیہ ناولوں، فحش افسانوں، عریاں ڈراموں، ہیجان اور فلمی گانوں اور جنسی مناظر کی عکاسی پر مشتمل ہوتا ہے اور گلی کوچوں میں بُک اسٹالوں اور کرائے کی لائبریریوں میں ملتا ہے۔ بلکہ سب سے پہلے سامنے وہ اسالیبِ ادب آتے ہیں جن کی طرف قرآن حکیم نے ہمارے رہنمائی کی ہے۔ قرآن حکیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعلیم و اصلاح کے لئے کوئی ایک ہی اختیار نہیں کیا بلکہ مختلف طبقات، ذہن و فکر ی مختلف سطح اور اخذ و قبول کی مختلف استعداد رکھنے کے لئے مختلف اسالیب کو اختیار کیا گیا ہے مثلاً: ٭ عام طور پر سیدھا سادا صاف بیانیہ انداز اختیار کیا گیا ہے اور دعوت پوری تفصیل و وضاحت کے ساتھ پیش کر دینے کے بعد انسانی ذہنوں اور دماغوں سے توقع کی ہے کہ وہ اسے حق سمجھ کر قبول کر لیں۔ ٭ لیکن جن کی ذہنی و فکری سطح بلند تھی ان کے لئے ہر جگہ وہ عام اور متعارف اسلوب ہی نہیں بلکہ اشارت و اجمالی انداز بیان سے بھی کام لیا گیا ہے۔ ٭ کہیں انعام و اکرام کے تذکرے اور اجر و ثواب کے بیان سے عملِ صالح کا شوق دل میں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٭ جہاں اخذ و قبولِ حق کی استعداد کم تھی وہاں ان کو ان کے برے اعمال کے نتائجِ بد اور عذابِ آخرت سے ڈرایا گیا ہے۔ ٭ کسی کو سمجھانے کے لئے تمثیلی پیرایہ بیان اپنایا۔ ٭ متعدد مقامات پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کہانی (قصہ) کا اسلوب بھی اختیار کیا۔