کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 138
پر موجودہ زمانے کے علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔
(۳)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح اور غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کے لحاظ سے کون سے اسالیب و معیار اختیار کیے جائیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق بھی ہوں اور نتیجہ خیز بھی۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ زمانے میں سیرت کے موضوع پر تصنیف و تالیف میں مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح یا دنیا میں سیرت کی عوت و تبلیغ ہر دو مقاصد کے لحاظ سے چند امور کا خاص طور پر خیال رکھا جائے۔
چنانچہ دعوت و تبلیغ کے مقاصد کے نقطۂ نظر سے ضروری ہے کہ:
1. سیرت کے جب مباحث میں مستشرقین نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو حقائق کے خلاف ہے یا وہ جہاں کسی بات کی کُنہ تک نہیں پہنچ سے ہیں، وہاں ان کے اعتراض یا عدم رسائی کے ایک ایک پہلو کو ملحوظ رکھا جائے لیکن اندازِ بیان مدافعانہ کے بجائے مثبت اور دعوتی ہو۔ مناظرانہ، جوابی اور تنقیدی و الزامی اندازِ بیان اختیار نہ کیا جائے۔
2. آج کی علمی دنیا میں تحقیق اور تصنیف و تالیف کا جو انداز و معیار ہے ہماری ہر پیشکش اس معیار کے مطابق ہو۔
3. ہماری تمام تصانیف و تحاریر وقت کی معیاری اور ٹکسالی زبان (جو زبان بھی ہو) اور معروف و مستند اسلوب میں ہو۔
4. جو کچھ پیش کیا جائے قیدت کے اسلوب کے بجائے علم و فن کی زبان میں ہو۔ ہمارے نزدیک عقیدت کا یہ معیار ہرگز نہیں کہ زبان کا ایک خاص لب و لہجہ اختیار کر لیا جائے، بلکہ نہایت زور اور قوت کے ساتھ یہ ثابت کر دینا اصل عقیدت ہے کہ ہمارے قبول و اختیار کی بنیاد حقیقت اور صرف حقیقت ہے، رسوم و روایات اور محض آباد پرستی نہیں۔
مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح اور تعمیر سیرت کے نقطۂ نظر سے ان امور کو خاص خیال پر ملحوظ رکھا جائے۔
1. مختلف طبقات کی سیاسی، سماجی اور کاروباری زندگی کے پیشِ نظر ان کی نسیات، ان کی ذہنی استعداد کے مطابق سیرت کا لٹریچر چھوٹی و بڑی کتابوں کے مختلف سلسلوں میں ہو۔
2. بہت ہی آسان، شستہ اور معیاری زبان میں ہو۔
3. ادب کے معروف اسالیب و اصناف میں ہو۔