کتاب: محدث شمارہ 27-28 - صفحہ 137
رفتار بھی تیز ہو گئی اس لئے ذہن و فکر اور رجحان و طبائع میں تبدیلیاں بھی جلد جلد ہونے لگی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ تعلیم و اصلاح کا کوئی ایک اسلوب سب کے لئے اور ہمیشہ کے لئے مفید نہیں ہو سکتا اگر ہم تعلیم و اصلاح کے مقاصد میں مخلص ہیں تو ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آج کے دور میں ہم کیا اسلوب اختیار کریں کہ ہماری کوششیں بے نتیجہ ثابت نہ ہوں۔
مسلمان اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابن عبد اللہ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور انہیں یہ عقیدہ رکھنے کا ہر طرح حق ہے لیکن جب وہ اپنے اس عقیدے کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام کی دعوت تمام ملکوں اور تمام قوموں کے لئے اور ہمیشہ کے لئے ہے اور جب وہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للّعالمین ہیں تو گویا وہ دنیا کو چیلنج کرتے ہیں اور دنیا کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اسلام کے داعی اور اسلام کی تعلیمات کو حقیقت و تاریخ کی کسوٹی پر پرکھے اور دیکھے کہ وہ اپنے عقیدے اور دعوے میں کتنے سچے ہیں؟ لیکن جب ہم دنیا کو اس طرح چیلنج کرتے ہیں تو کیا ہمارے اوپر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ ہم دنیا کے مختلف لوگوں کے لئے، مختلف زبانوں کے جاننے والوں کے لئے ان کی زبانوں میں وقت کے تحقیقی و تصنیفی معیار کے مطابق، علمی انداز میں، زبان و بیان کے معیاری اسالیب میں، عقیدت و ارادت کے رسمی و روایتی اسلوب سے مختلف انداز میں حقائق کو پیش کریں اور سیرت کے مطالعے میں غیر مسلم محققین کی رہنمائی کریں اور ان کے سامنے نظر و بصیرت اور ادب و تحقیق کا اتنا بڑا سرمایہ فراہم کر دیں کہ ان کی آنکھیں خیرہ اور عقلیں مبہوت ہو کر رہ جائیں۔ اردو زبان کا دامن سیرتِ نبوی پر محققانہ سرمائے سے تہی ہرگز نہیں بعض چھوٹے چھوٹے رسائل اس پائے کے ہیں کہ دوسری زبانوں میں ان کی نظیر و مثیل نہیں اور ان کی علمی و تحقیقی حیثیت بڑی بڑی تصنیفات پر بھاری ہے، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ:
1. برِّصغیر پاک و ہند کی مخصوص آبادیوں اور خطوں میں تبلیغ و اشاعت اور مسلمانوں کی اصلاح و تربیت میں اردو زبان کی اہمیت سے انکار نہیں تاہم
٭ برصغیر کے تمام دیار و امصار اور تمام قوموں میں تبلیغ و اشاعت اور اصلاح و تعلیم و تربیت کے لئے صرف اردو ہی کافی نہیں۔
٭ دنیا کی علمی اور بین الاقوامی زبان اردو نہیں، انگریزی، جرمنی اور فرنچ وغیرہ ہیں۔
2. مستشرقین اور مناظرین کے جواب میں نہایت بلند پایہ سرمایہ جمع ہو چکا ہے لیکن یہ مثبت علمی و تحقیقی انداز میں نہیں ہے، مناظرانہ جوابی اور مدافعانہ انداز بیان میں ہے۔
3. ہر زمانے میں علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کا ایک خاص معیار ہوتا ہے اردو میں سیرت کا لٹریچر عام طور